مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے پر 12 سال قید

​​​​​​​36  سالہ ملزم ڈیوڈ پرنہم پر الزام تھا کہ وہ ایک لمبے زیادہ عرصے سے مساجد، سیاستدانوں اور برطانیہ کی ملکہ کو نفرت پر مبنی خطوط کے ذریعے نشانہ بنا رہے تھے۔

جج کا کہنا تھا کہ پرنہم اس نقصان کو صحیح سے نہیں سمجھ پائے ہیں جو انہوں نے مسلم برادری اور تمام کمیونٹی کو پہنچایا اور اس لیے اس بات کا خطرہ زیادہ ہے کہ وہ واپس ایسا کچھ کر سکتے ہیں (اے پی)

برطانیہ کی ایک عدالت نے سفید فام بالادستی کے حامی ایک شخص، جس نے ’پنش اے مسلم ڈے‘ یعنی مسلمانوں کو سزا دینے کا دن کی مہم شروع کی تھی، کو ساڑھے 12 سال قید کی سزا سنائی ہے۔

ڈیوڈ پرنہم خود کو ’مسلم سلیئر‘ یا مسلمانوں کا قاتل قرار دیتے تھے اور جعلی اینتھریکس سے بھرے پارسل بھیجتے تھے۔ عدالت کے حکم کے مطابق وہ ہسپتال میں اس وقت تک قید کی سزا کاٹیں گے جب تک وہ جیل جانے کے قابل نہیں ہو جاتے۔

ان کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ 36 سالہ ملزم پر الزام تھا کہ وہ ایک لمبے زیادہ عرصے سے مساجد، سیاستدانوں اور برطانیہ کی ملکہ کو نفرت پر مبنی خطوط کے ذریعے نشانہ بنا رہے تھے۔

سماعت کے دوران انہوں نے قتل کی ترغیب دینے، جرائم کی حوصلہ افزائی، بم اور دیگر مہلک مواد کی موجودگی کی جھوٹی اطلاع دینے اور تکلیف پھیلانے کے ارادے سے خطوط بھیجنے سمیت اپنے تمام جرائم کا اعتراف کیا۔

2018 کے آغاز میں ایک امریکی سفید فام بالادستی کے حمایتی کی سالگرہ کے موقعے پر مسلمانوں پر تشدد کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹائپ شدہ ’پنش آ مسلم ڈے‘ کے حوالے سے سلسلہ وار خطوط بھیجے گئے تھے۔

ان خطوط میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یورپ اور شمالی امریکہ مسلمانوں سے ’بھر‘ رہے ہیں۔ ان خطوط میں مسلمانوں پر حملوں کے لیے ایک فہرست موجود ہے جس میں خواتین کے سروں سے حجاب نوچنے، تیزاب سے حملے کرنے، تشدد کا نشانہ بنانے، مساجد کو بم دھماکوں سے اڑانے اور مسلمانوں کو بندوقوں، چاقووں اور گاڑیوں سے ’کچل‘ ڈالنے تک کی ترغیب دی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جج اینتھونی لینرڈ کیو سی نے کہا کہ پرنہم اوٹسٹک سپیکٹرم ڈس آرڈر میں مبتلا ہیں مگر اس خیال کو رد کر دیا کہ وہ یہ جرائم کرنے کے وقت سائیکائٹرک یا دماغی مریض تھے۔ 

جج نے منگل کو عدالت میں پرنہم سے مخاطب ہو کر کہا: ’آپ ابھی بھی اپنے جرائم کی سنجیدگی کو سمجھ نہیں سکے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ واپس جا کہ رہنے کی جلدی میں ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پرنہم اس نقصان کو صحیح سے نہیں سمجھ پائے ہیں جو انہوں نے مسلم برادری اور تمام کمیونٹی کو پہنچایا اور اس لیے اس بات کا خطرہ زیادہ ہے کہ وہ واپس ایسا کچھ کر سکتے ہیں۔

عدالت کو بتایا گیا کہ اگرچہ اس مہم کو کسی بھی پُرتشدد واقعے سے نہیں جوڑا جا سکا لیکن اس مہم نے اس وقت کے وزیر داخلہ ساجد جاوید سمیت کئی سیاست دانوں کو موصول ہونے والے خطوط کے بعد برطانیہ کی مسلم برادری میں خوف و ہراس پھیلا دیا تھا۔

لبرل ڈیموکریٹک سے تعلق رکھنے والے لارڈ حسین نے ایک ایسے ہی خط موصول ہونے کے بعد اپنے دہشت زدہ احساسات کے بارے میں بتایا۔ بعد میں انہوں نے اس خط کو دار الامرا کو بھیج دیا تھا۔

عدالت میں پڑھے گئے بیان میں لارڈ حسین کا کہنا تھا: ’جب میں نے پہلی بار اس (خط) کو پڑھا تو اس کے مندرجات سے مجھے شدید صدمہ پہنچا اور اس کے ساتھ ہی خوف بھی، نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے خاندان کے افراد، اپنے گھر اور دیگر تمام مسلمانوں کے لیے بھی۔‘

’میں 47 سالوں سے اس ملک میں رہ رہا ہوں اور اس سے پہلے میں نے کبھی ایسا (نفرت انگیز) مواد نہ دیکھا اور نہ ہی پڑھا۔‘

لنکن میں سینٹ اینڈریوز کلوز کے رہنے والے ڈیوڈ پیرنہم کو انسداد دہشت گرد پولیس کی تفتیش کے بعد خطوط پر ملنے والے ان کے ڈی این آ، لکھائی اور فنگر پرنٹس کے ذریعے پکڑا گیا تھا۔

’ٹیل ماما‘ مانیٹرنگ گروپ کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ’پنش آ مسلم ڈے‘ مہم سے برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے خوف و ہراس پھیلا ہے۔

گروپ کی سالانہ رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ 37 آف لائن واقعات کا براہ راست تعلق ڈیوڈ پیرنہم کے خطوط سے ہے جس نے مسلمانوں اور اسلام پر قومی بحث و مباحثے کو جنم دیا۔

’ٹیل ماما‘ کے ڈائریکٹر ایمان عطا نے کہا: ’اس مہم سے بہت سارے مسلمانوں خصوصا مسلمان خواتین کے لیے شدید خوف اور پریشانی پیدا ہوئی۔ ان خواتین نے ’ٹیل ماما‘ سے رابطہ کیا تاکہ معلوم کرسکیں کہ کیا انہیں (پنش آ مسلم ڈے) کی طے شدہ تاریخ پر گھر پر ہی رہنا چاہیے۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ