چین میں ابھرنے والی ممکنہ ’وبا‘ پر دنیا کو کتنا پریشان ہونا چاہیے؟

کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث بدھ کو ڈبلیو ایچ او کو چین کو سانس کی بیماریوں اور بچوں میں نمونیا جیسی علامات والے مرض کے اعدادوشمار جاری کرنے کے لیے باضابطہ درخواست دینا پڑی۔

23 نومبر، 2023 کو بیجنگ میں بچوں کے ایک اسپتال میں بچے اور ان کے والدین بیرونی مریضوں کی انتظار گاہ میں۔ عالمی ادارہ صحت نے 23 نومبر 2023 کو چین سے ملک کے شمال میں پھیلنے والی سانس کی بیماری کے بارے میں مزید اعدادوشمار طلب کرتے ہوئے شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ انفیکشن کے خطرے کو کم کرنے کے لیے اقدامات کریں (جیڈ گاؤ/ اے ایف پی)

چین کے ہسپتالوں میں بڑی تعداد میں سانس کی بیماریوں کے کیسز اور بیمار بچوں میں نمونیا جیسی علامات کی شکایت سامنے آئی ہیں جس کی وجہ سے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اس کی جانچ کو بڑھا دیا ہے۔

اس سے قبل بیجنگ کے بچوں کے ہسپتال نے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کو بتایا تھا کہ یہاں روزانہ کم از کم سات ہزار مریض داخل کیے جا رہے ہیں جو ہسپتال کی گنجائش سے کہیں زیادہ ہیں۔

گذشتہ ہفتے قریبی شہر تیانجن کے سب سے بڑے بچوں کے ہسپتال کے آؤٹ ڈور اور ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹس میں 13 ہزار سے زیادہ بچے لائے گئے۔ دارالحکومت بیجنگ سے تقریباً 690 کلومیٹر دور لیاؤننگ صوبے میں بھی اس طرح کے کیسز کی تعداد زیادہ ہے۔

چینی وزارت صحت نے مقامی حکام سے بخار کے کلینکس کی تعداد بڑھانے کو کہا ہے۔

نیشنل ہیلتھ کمیشن کے ترجمان مائی فینگ نے اتوار کو بتایا کہ ’متعلقہ کلینک اور علاج کے شعبوں کی تعداد زیادہ کرنے، سروس کے اوقات کو بڑھانے اور ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’سکولوں، بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے اداروں اور نرسنگ ہومز جیسے رش والے مقامات پر وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے اچھا کام کرنا اور لوگوں کے لیے ہپستالوں کے چکر کم کرنا ضروری ہے۔‘

کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث بدھ کو ڈبلیو ایچ او کو چین کو سانس کی بیماریوں اور بچوں میں نمونیا جیسی علامات والے مرض کے اعدادوشمار جاری کرنے کے لیے باضابطہ درخواست دینا پڑی۔

صحت کے عالمی ادارے کے لیے عام طور پر کسی ملک سے مزید تفصیلی معلومات حاصل کرنا غیر معمولی ہے کیونکہ ایسی درخواستیں عام طور پر داخلی طور پر کی جاتی ہیں۔ عالمی ایجنسی کے چین میں دفتر نے کہا کہ یہ ایک ’معمول کی‘ درخواست ہے۔

چین میں صحت کے حکام نے بعد میں کہا کہ انہیں کوئی ’غیر معمولی یا نئی بیماری‘ کے ثبوت نہیں ملے۔ چینی حکام کا کہنا تھا کہ بڑھتے ہوئے انفیکشن پہلے سے معلوم وائرسز کا مجموعہ ہیں جو گذشتہ سال دسمبر میں کووِڈ کی سخت پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد ملک کے پہلے مکمل سرد موسم سے جڑی ہوئی ہیں۔

حکام کا خیال ہے کہ مائکوپلاسما نمونیا جیسے پیتھوجینز کی گردش کے ساتھ ساتھ کرونا پابندیوں کو اٹھانے جیسے اقدامات سے اس طرح کی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ ہو سکتے ہیں۔ 

ڈبلیو ایچ او نے بدھ کو یہ بھی کہا کہ غیر تشخیص شدہ نمونیا اور سانس کے انفیکشن میں اضافے کے درمیان کوئی تعلق ابھی تک واضح نہیں ہے۔

اب تک کیا ہوا ہے؟

ڈبلیو ایچ او کے مطابق شمالی چین میں اکتوبر کے وسط سے ’انفلوئنزا جیسی بیماریوں‘ میں اضافہ ہوا ہے جو پچھلے تین سالوں کی اسی مدت کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

21 نومبر کو عوامی صحت پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے ’پرومیڈ‘ نے ’غیر تشخیص شدہ نمونیا‘ کی رپورٹس کے بارے میں نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

پرومیڈ کو ماہرین صحت کے ذریعے چلایا جاتا ہے جنہوں نے 2019 کے اوائل میں اس وائرس کے حوالے سے بھی خطرے کی گھنٹی بجائی تھی جو کووڈ کا سبب بنتا ہے۔

پرومیڈ نے ایف ٹی وی نیوز کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’چین میں نمونیا کے پھیلنے کے ساتھ، بیجنگ، لیاؤننگ اور دیگر مقامات پر بچوں کے ہسپتال بیمار بچوں سے بھر گئے ہیں اور سکول اور کلاسیں معطل ہونے کے دہانے پر ہیں۔ یہ بالکل واضح نہیں ہے کہ یہ وبا کب شروع ہوئی کیونکہ اتنے سارے بچوں کا اتنی جلدی متاثر ہونا غیر معمولی بات ہوگی۔‘

یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ چین کے کئی علاقوں میں سانس کی ایک غیر تشخیصی بیماری کے پھیلنے کا خدشہ ہے کیونکہ بیجنگ اور لیاؤننگ تقریباً 800 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔

رپورٹ میں یہ نہیں کہا گیا کہ سکولوں اس وائرس کا سامنا کرنے والا کوئی بالغ شخص متاثر ہوا تھا۔ جمعے کو شنگھائی میں کچھ والدین نے کہا کہ وہ اس بیماری کی لہر کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں ہیں۔ بچوں کے ہسپتال کے باہر موجود ایملی وو نامی شخص نے کہا کہ ’سردی پوری دنیا میں ہوتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ لوگ وبائی امراض کی وجہ سے متعصب نہیں ہوں گے لیکن اس کو سائنسی نقطہ نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔‘

اس وبا کی علامات کیا ہیں؟

چینی صحت کے حکام کے مطابق اس وبا کا تعلق مائکوپلاسما نمونیا سے ہو سکتا ہے جسے ’واکنگ نمونیا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک عام بیکٹیریل انفیکشن ہے جو عام طور پر بچوں کو متاثر کرتا ہے جو مئی سے گردش کر رہا ہے۔

واکنگ نمونیا کی علامات میں گلے میں خراش، تھکاوٹ اور طویل مدت کے لیے کھانسی شامل ہے جو ہفتوں یا مہینوں تک رہ سکتی ہے۔ سنگین صورت حال یہ نمونیا بالآخر بگڑ سکتا ہے۔

بیجنگ کے ایک شہری، جس نے اپنی شناخت صرف وی کے نام سے کی، نے ایف ٹی وی نیوز کو بتایا کہ متاثرہ بچے ’کھانسی نہیں کرتے اور ان میں کوئی علامات نہیں ہیں۔ ان کا بخار کی طرح صرف درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے۔ کئی کے پھیپھڑوں میں پلمونری ناڈیولز بن جاتے ہیں۔ 

صحت کے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے والی فرم ایئرفینیٹی نے خبر دی ہے کہ سیچوان صوبے کے ایک ہسپتال میں بھی مریضوں میں غیر معمولی علامات کی اطلاع ملی ہے۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی کے پروفیسر جن ڈونگ یان نے بلوم برگ کو بتایا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ صرف بچے ہی اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پہلے سے موجود جرثومہ ہو سکتا ہے۔

’اگر یہ کوئی نیا جرثومہ ہوتا تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ یہ زیادہ تر بالغوں کو متاثر کرتا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے بالغ عادی ہو چکے ہیں۔‘

تاہم مائیکوپلازما کی وجہ سے اس سے قبل چین میں ہر دو سے چار سال بعد وبائی امراض پھوٹتے رہے ہیں۔ بیجنگ میں تازہ ترین مثبت شرح 40 فیصد ہے جو 2019 کی بلند ترین سطح سے تقریباً 1.3 گنا زیادہ ہے۔

بیماری کتنی پھیل سکتی ہے؟

میلبورن یونیورسٹی کے سکول آف ہیلتھ سائنسز کے سربراہ بروس تھامسن نے روئٹرز کو بتایا کہ بہت ہی ابتدائی اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ کوئی بھی چیز قابو سے باہر نہیں ہے۔

انہوں نے کہا: ’اس مرحلے پر یہ تسلیم کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے کہ یہ کووِڈ کی ایک نئی شکل ہو سکتی ہے۔‘

ان کے مطابق: ’ایک بات قابل غور ہے کہ ہمیں یقین دلایا جانا چاہیے کہ نگرانی کے عمل کام کر رہا ہے جو کہ بہت اچھی بات ہے۔‘

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ چین میں لوگوں کو ویکسین کروانی چاہیے۔ اگر وہ بیمار محسوس کر رہے ہیں تو الگ تھلگ رہیں، اگر ضروری ہو تو ماسک پہنیں اور ضرورت کے مطابق طبی امداد حاصل کریں۔

عالمی ایجنسی نے کہا ہے کہ ’جب تک ڈبلیو ایچ او کو اضافی معلومات حاصل نہیں ہو جاتیں، ہم تجویز کرتے ہیں کہ چین میں لوگ سانس کی بیماری کے خطرے کو کم کرنے کے لیے اقدامات پر عمل کریں۔‘

سائنس دان کیا کہہ رہے ہیں؟

ڈبلیو ایچ او کو کووڈ پر مشورہ دینے والے ڈچ وائرولوجسٹ ماریون کوپ مینس نے کہا کہ ’ہمیں اس حوالے سے مزید معلومات، خاص طور پر تشخیصی معلومات کی ضرورت ہے۔‘ ان کے بقول: ’ہمیں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔‘

لندن سکول آف ہائیجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن سے وابستہ ڈیوڈ ہیمن نے کہا کہ ’وبا کا پتہ لگانا اور اس کی وجہ کا تعین کرنا ہے ہی اصل چیلنج ہے۔‘

انہوں نے نشاندہی کی کہ اس کے پیچھے موسمی انفیکشن کا ممکنہ پس منظر ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک اور طبی ماہر برائن میک کلوسکی، جنہوں نے وبائی امراض پر ڈبلیو ایچ او کو مشورہ دیا تھا، نے کہا: ’میں اب تک جو کچھ جانتا ہوں اس کی بنیاد پر میں بطور وبا اس کے لیے پینک بٹن دبانے کا مشورہ نہیں دوں گا لیکن میں چین کی طرف سے ڈبلیو ایچ او کے ردعمل کو دیکھنے اور اس کے بعد ڈبلیو ایچ او کی تشخیص کو دیکھنے کا منتظر رہوں گا۔‘ 

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ڈبلیو ایچ او کے بین الاقوامی صحت کے ضوابط کے سسٹم کو فعال دیکھ رہے ہیں۔‘

وہ ان قوانین کا حوالہ دے رہے تھے جن کے تحت دنیا کے ممالک ممکنہ وبا پر ڈبلیو ایچ او کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

امپیریل کالج لندن سے تعلق رکھنے والے ماہر وائرولوجسٹ ٹام پیکاک نے کہا کہ یہ امکان نہیں ہے کہ بڑھتے ہوئے انفیکشنز کی نگرانی کی جائے گی کیونکہ انفلوئنزا یا کرونا وائرس کو ’بہت تیزی سے‘ جانچنے کے لیے ہمارے پاس اب آلات موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’مجھے شبہ ہے کہ یہ کچھ معمولی چیز یا چیزوں کا مجموعہ ہو سکتا ہے جسے آپ کووڈ، فلو، آر ایس وی (سانسیٹری سنسیٹل وائرس) کہہ سکتے ہیں لیکن امید ہے کہ ہم جلد ہی مزید معلومات حاصل کر لیں گے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت