صدر ٹرمپ کرونا وبا کے مقابلے میں گھبرا گئے: جو بائیڈن کا الزام

دوسری صدارتی بحث کے ملتوی ہونے کے بعد مختلف چینلز پر وٹروں سے خطاب کرتے ہوئے جو بائیڈن نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے وائرس کی ہلاکت خیزی کو امریکی عوام سے چھپایا جس سے دو لاکھ سے زائد جانیں گئیں۔جبکہ صدر ٹرمپ نے وبا کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کا دفاع کیا۔

(اے ایف پی)

امریکی صدارتی امیدوار اور سابق نائب صدر جوبائیڈن نے الزام عائد کیا ہے کہ صدر ٹرمپ کرونا (کورونا) وائرس کے مقابلے میں گھبرا گئے تھے جبکہ صدر ٹرمپ نے کرونا وائرس پر قابو پانے کے لیے اپنائی جانے والی اپنی حکمت عملی کا دفاع کیا ہے۔

یاد رہے کرونا وائرس سے امریکہ میں دو لاکھ 16 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

دونوں حریفوں نے جمرات کو ملتوی ہونے والے صدارتی مباحثے کے بعد ٹاون ہالز سے ایک ہی وقت میں مختلف ٹیلی ویژن چینلز کے ذریعے خطاب کیا۔ دوسرے مباحثے کا طریقہ کار صدر ٹرمپ کے کرونا سے متاثر ہونے کے بعد تبدیل کیا گیا ہے۔

ایک ہی وقت میں دو سکرینز پر ہونے والے اس بلا واسطہ مباحثے سے کرونا کے امریکی سیاست پر مرتب ہونے والے اثرات کو دیکھا جا سکتا ہے جس کے باعث الیکشن سے دو ہفتے قبل ہی ایک کروڑ اسی لاکھ افراد اپنے ووٹ کاسٹ کر چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


بائیڈن نے الزام عائد کیا کہ صدر ٹرمپ نے وائرس کی ہلاکت خیزی کو امریکی عوام سے چھپایا ہے جو دو لاکھ سے زائد امریکیوں کو ہلاک کر چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا:  'وہ کہتے ہیں انہوں نے کسی کو نہیں بتایا کیونکہ امریکی گھبرا جاتے، امریکی نہیں گھبراتے، وہ خود گھبرا گئے۔'

دوسری جانب صدر ٹرمپ نے کرونا سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی اور ذاتی طور پر کرونا سے متاثر ہونے کے بعد کیے جانے والے اقدامات دونوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا: 'میں صدر ہوں۔ مجھے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔ میں کسی تہہ خانے میں نہیں رہ سکتا۔'

خیال رہے کرونا سے متاثر ہونے کے بعد صدر ٹرمپ کے وائٹ ہاوس واپسی پر ماسک اتارنے ور وائٹ ہاوس میں ہی ایسی تقریب منعقد کرنے جس میں بہت کم افراد نے ماسک پہن رکھا تھا پر صدر ٹرمپ پر کافی تنقید کی جا رہی تھی۔

صدر ٹرمپ اور سابق نائب صدر جو بائیڈن کے درمیان دوسرا مباحثہ جمعرات کو ہونا تھا لیکن صدر ٹرمپ کے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد منتظمین نے اس کو ایک ورچوئل مباحثے میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا جس پر صدر نے اس میں حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ 

دونوں کے درمیان تیسرا اور آخری مباحثہ 22 اکتوبر کو نیش ویل میں ہو گا۔ صدر ٹرمپ ملٹری ہسپتال میں تین دن گزارنے کے بعد اپنی الیکشن مہم پر واپس آ چکے ہیں اور وہ اس دوڑ میں سبقت حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

روئٹرز اور آئی پی ایس او ایس پولز کے مطابق بائیڈن کو اب تک ان پر واضح برتری حاصل ہے گو کہ ابھی تک ان ریاستوں کا زیادہ نتیجہ سامنے نہیں آ سکا جہاں سخت مقابلہ متوقع ہے۔ کئی امریکی ریاستوں میں ابھی سے قبل از ووٹنگ کے ذریعے ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔

دیونیورسٹی آف فلوریڈا امریکہ میں قبل از وقت ووٹنگ یعنی ڈاک کے ذریعے ووٹنگ میں اب تک ایک کروڑ اسی لاکھ سے زائد امریکی اپنے ووٹ کا حق استعمال کر چکے ہیں، جو کہ سال 2016 کے انتخابات میں پول کیے جانے کل ووٹس کا تقریباً 13 فیصد بنتا ہے۔

ووٹرز کی جانب سے کرونا کی وبا کی وجہ سے ووٹنگ لائنز میں لگنے سے گریز کر رہے ہیں سے اور ڈاک سے ووٹ کے طریقے کا استعمال کر رہے ہیں۔ 

ماہرین کو تشویش ہے کہ صدر ٹرمپ ڈاک سے بھیجے جانے والے ووٹس کو ماننے سے انکار کر سکتے ہیں کیونکہ وہ پہلے بھی اس کو فراڈ قرار دے چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ