ایک صحافی کی حیثیت سے جب میں امریکی ذرائع ابلاغ کا جائزہ لیتا ہوں تو صدر ٹرمپ کا یہ دعویٰ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ میڈیا متعصب اور ان کے خلاف ہے۔ اگرچہ وہ سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں اور نام لے کر امریکی اخبارات اور نیوز چینلوں کو جعلی میڈیا کہتے ہیں لیکن غیر جانب دار شخص کے طور پر ان کا غصہ سمجھ میں آتا ہے۔
دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے میڈیا حزب اختلاف کا کردار ادا کرتا ہے، ان ملکوں میں بھی جہاں اپوزیشن نہیں ہوتی یا اسے سخت دباؤ کا سامنا ہے۔ بہت سے صحافی، دانشور اور ادیب بائیں بازو کی طرف فطری جھکاؤ رکھتے ہیں۔ لیکن سی این این، نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور دوسرے بڑے اخبارات اور نیوز چینلوں کی کوریج دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ وہ بعض اوقات خبر کو توڑمروڑ کر ایسے پیش کرتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کا منفی تاثر سامنے آئے۔ شاید انھیں اس کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ صدر ٹرمپ خود ایسے بیانات دے جاتے ہیں کہ میڈیا کو بات کا بتنگڑ بنانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ دوسری جانب فوکس نیوز ہے جو مقابلے میں صدر ٹرمپ کی اس قدر حمایت میں کوریج کرتا ہے کہ کئی بار اپنی آنکھوں اور کانوں پر اعتبار نہیں آتا۔
وہی سرخی جو واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز میں نمک مرچ کے ساتھ لگائی جاتی ہے اور فوکس نیوز پر شیرے میں لتھڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے، وال سٹریٹ جرنل میں پھیکی سیٹھی لگتی ہے۔ لیکن شاید معیاری صحافت وہی ہے۔
عام ایک آدمی اگر امریکی میڈیا دیکھے اور رائے عامہ کے جائزوں پر نظر ڈالے تو اسے یقین ہوجائے گا کہ الیکشن سے پہلے ہی صدر ٹرمپ یکطرفہ شکست سے دوچار ہو چکے ہیں۔ تین سال تک وہ معیشت کی ترقی کو اپنی کامیابی کے طور پر پیش کرتے رہے لیکن کرونا وائرس نے اسے مٹی کر دیا۔ کروڑوں شہری بیروزگار اور دو لاکھ سے زیادہ ہلاک ہو گئے۔ خود صدر ٹرمپ بھی بیمار ہوئے۔ ان حالات کا اثر انتخابات پر پڑے گا لیکن کس حد تک اور نتیجہ کیا برآمد ہو گا، کسی غیر جانب دار اور سنجیدہ آدمی کے لیے اس وقت یہ پیش گوئی کرنا آسان نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈیموکریٹک پارٹی کے حامی اس بات پر بہت خوش اور مطمئن ہیں کہ تقریباً تمام پولز میں جو بائیڈن کو صدر ٹرمپ پر برتری حاصل ہے۔ حال میں کیے گئے نو سرویز میں اوسطاً ان کی سبقت 9.7 پوائنٹس تھی اور چند ماہرین کا کہنا ہے کہ آج تک اتنے فرق والا امیدوار الیکشن نہیں ہارا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ چار سال پہلے ہلیری کلنٹن کو بھی اتنی ہی برتری حاصل تھی۔ جو بائیڈن کے مقابلے میں وہ زیادہ متحرک تھیں، زیادہ جوشیلے خطاب کررہی تھیں اور ان کا مقابلہ ایک ایسے امیدوار سے تھا جسے سیاست میں آؤٹ سائیڈر قرار دیا جا رہا تھا۔ اس بار صدر ٹرمپ آؤٹ سائیڈر نہیں بلکہ وائٹ ہاؤس میں بیٹھے ہیں۔ کرونا وائرس کی وبا کے باعث انتخابی مہم سست ہے اور جو بائیڈن ویسے بھی زیادہ جوشیلے اور متحرک نہیں۔ صدر ٹرمپ بیماری کا مقابلہ کرنے کے باوجود مسلسل شہ سرخیوں میں ہیں اور اپنے ووٹروں کو نکلنے کے لیے اکسا رہے ہیں۔
گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں ایک فرق البتہ واضح ہے۔ امریکہ میں الیکشن ڈے سے کئی ہفتے پہلے ارلی ووٹنگ کا آغاز ہو جاتا ہے اور اس بار اب تک 66 لاکھ سے زیادہ ووٹ ڈالے جا چکے ہیں۔ یہ چار سال پہلے کے مقابلے میں 10 گنا سے زیادہ تعداد ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ وبا ہو۔ لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بار ٹرن آؤٹ نیا ریکارڈ قائم کرے گا کیونکہ دونوں طرف کامیابی کی خواہش غیر معمولی ہے۔
امریکہ میں صدارتی انتخاب کا حساب کتاب ذرا پیچیدہ ہے جس میں ملک بھر میں زیادہ ووٹ لینے والا ہار سکتا ہے اور کم ووٹ لینے والا جیت سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ریاست میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار اس ریاست کے تمام الیکٹورل ووٹ جیت جاتا ہے۔ کیلی فورنیا جیتنے والے کو پورے 55 اور الاسکا جیتنے والے کو تین ووٹ ملتے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ زیادہ ریاستیں جیتنے والا بھی ہار جائے کیونکہ کم ووٹوں والی زیادہ ریاستیں جیتنے کے مقابلے مں زیادہ ووٹوں والی کم ریاستیں صدارتی انتخاب میں کامیابی دلوا سکتی ہیں۔
اب اہم بات یہ ہے کہ بیشتر ریاستیں روایتی طور پر ریڈ یعنی رپبلکن اور بلو یعنی ڈیموکریٹ ہیں۔ الیکشن سے پہلے سو فیصد درست پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ کیلی فورنیا کے 55 اور نیویارک کے 29 الیکٹورل ووٹ جو بائیڈن کی جھولی میں ہیں۔ اسی طرح 38 ووٹوں والی ٹیکسس روایتی طور پر رپبلکن کی ریاست رہی ہے۔
جن ریاستوں کے نتائج بدلتے رہتے ہیں، انھیں سوئنگ سٹیٹس یعنی جھولتی ہوئی ریاستیں کہا جاتا ہے۔ ان میں فلوریڈا کے 29، پنسلوانیا کے 20، مشی گن کے 16، جارجیا اور شمالی کیرولائنا کے 15،15 ایریزونا کے 11 اور وسکونسن کے 10،10 الیکٹورل ووٹ شامل ہیں۔ چار سال پہلے یہ تمام ریاستیں صدر ٹرمپ نے جیتی تھیں۔ اس بار رائے عامہ کے جائزوں میں جو بائیڈن ان ریاستوں میں آگے ہیں۔