جب گاڑی کی ایک ٹکر شکتی کپور کے کیریئر کو نئے موڑ پر لے آئی

اگر فیروز خان اوور ٹیکنگ کرتے ہوئے شکتی کپور کی گاڑی سے اپنی گاڑی نہ ٹکراتے تو ان کا فلم کیریئر بھی بس مختلف سٹوڈیوز کے دروازوں پر ٹکر ہی مار رہا ہوتا۔

بالی وڈ اداکار شکتی کپور ہدایتکار سورج کے ہمراہ ایک تقریب میں موجود ہیں (انسٹاگرام شکتی کپور)

شکتی کپور نے جیسے ہی ایک موڑ کاٹا تو اچانک انہیں ایک زور دار جھٹکا ایسا لگا کہ یکدم ان کی پرانی گاڑی ہچکولے کھا کر رک گئی۔

گاڑی میں دراصل کوئی خرابی نہیں ہوئی تھی بلکہ عقب سے آنے والی ایک عالی شان مرسیڈیز نے ان کی گاڑی کو ٹکر ماری تھی جب ہی ایک جھٹکے کے ساتھ وہ رکی تھی۔

شکتی کپور کاغصے سے تو برا حال ہی ہو گیا۔ ایک تو اتنی مشکل سے انہوں نے یہ گاڑی خریدی تھی جس کے لیے پیٹرول بھی ادھار پر حاصل کرتے اور جب کبھی کہیں کوئی کردار ملتا تو وہ اس کے معاوضے میں سے پیٹرول پمپ مالک کو اس کا ادھار ادا کرتے۔

گاڑی کے حادثے کے وقت وہ 15 روزہ فلمی جریدے کے دفتر جا رہے تھے جہاں وہ اپنی نئی فلم کی تصاویر دے کر ان سے گزارش کرتے کہ وہ اسے شائع کریں تاکہ کوئی ہدایتکار ان تصاویر کو دیکھتا تو ممکن ہے کہ شکتی کپور کو مزید فلموں کی پیش کش ہو جاتی۔

شکتی کپور کا اصلی نام سنیل تھا، دہلی سے تعلق تھا۔ اداکاری کے بڑے اور نامور انسٹی ٹیوٹ پونا سے فنکاری سیکھنے کے بعد فلموں میں قسمت آزمانے کی جستجو میں تھے۔

1975 میں فلمی دنیا سے جڑنے والے شکتی کپور اب تک گمنامی کے اندھیرے میں بھٹک رہے تھے۔ گو کہ اس دوران سرگم، جانی دشمن، مورچہ، قسم خون کی، کھیل کھلاڑی، آشا  اور دل سے ملے دل جیسی فلموں میں اپنی جھلک دکھائی لیکن کردار ہی کچھ ایسے واجبی نوعیت کے تھے کہ شکتی کپور کسی کی نگاہوں میں نہ آسکے۔

اسی کشمکش میں شکتی کپور کا سارا وقت ہدایتکاروں، پروڈیوسرز اور سٹوڈیوز کے چکر لگانے میں گزرتا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر انہیں کسی فلم میں بھرپور اور ان کی پسند کے مطابق کردار مل گیا تو وہ پھر پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھیں گے۔

بہرحال عقبی گاڑی کی ٹکر نے جیسے ان کے دل و دماغ میں آندھیاں چلا دیں۔ غربت، مایوسی اور ناکامی کے اس دور میں گاڑی پر لگنے والی یہ  ضرب انہیں اپنے دل پر لگتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اسی لیے وہ غصے سے لال ہوگئے۔

لمبے چوڑھے اور  سرخ و سفید شکتی کپور نے انتہائی غصے کے عالم میں گاڑی کا دروازہ کھولا اور سوچ لیا کہ اس گاڑی ڈرائیور کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑیں گے۔

شکتی کپور بجلی کی تیزی کے ساتھ گاڑی سے اترے اور غضب ناک انداز سے عقب سے آنے والی اس گاڑی کی طرف بڑھے۔ اس سے پہلے کہ وہ گاڑی تک پہنچتے۔ اچانک ہی اس گاڑی  کا بھی دروازہ کھلا۔ شکتی کپور جہاں تک جیسے ان کے قدم زمین پر چپک ہی گئے۔

شکتی کپور کا سانس اوپر کا اوپر نیچے کا نیچے رہ گیا۔ ڈرائیور کوئی اور نہیں دراز قد فیروز خان تھے جو ایک اداکار، پروڈیوسر اور ہدایتکار کی وجہ سے غیر معمولی شہرت رکھتے تھے۔

شکتی کپور جو اپنا نقصان وصول کرنے کی ٹھانے ہوئے تھے۔ اچانک ہی ان کا غصہ پانی کے بلبلے کی طرح بیٹھتا چلا گیا۔ فیروز خان نے چند سکینڈز کے لیے پہلے ان کو اور پھر ان کی اور اپنی تباہ گاڑی کو دیکھا۔

شکتی کپور نے اچانک پینترا بدلا اور فوراً التجائی انداز سے مخاطب ہوئے ’سر میں شکتی کپور، میں اداکار ہوں، پونا انسٹی ٹیوٹ سے اداکاری سیکھی ہے۔ مجھے ایک چانس بس ایک موقع دلا دیں۔‘

اس سارے واقعے کے دوران اچھی خاصی بھیڑ جمع ہوچکی تھی اور ہجوم کو جب معلوم ہوا کہ گاڑی میں فیروز خان ہیں تو یہ رش اوربڑھنے لگا۔ اب اس وقت تک کوئی شکتی کپو ر کو جانتا تک نہیں تھا۔ اسی لیے سارا جمگھٹا فیروز خان کے آس پاس تھا جنہوں نے ان سب سے بچنے کے لیے دوبارہ گاڑی کا رخ کیا اور پھر اپنی گاڑی کو ریورس کرتے ہوئے جائے وقوعہ سے کم و بیش فرار ہی ہوگئے۔

ادھر بے چارے شکتی کپور یہ سوچ رہے تھے کہ ایک تو نقصان ہوا اور دوسرے فیروز خان نے ان کی درخواست بھی سنی ان سنی کردی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جیسے تیسے کرکے فیروز خان نے گاڑی کو مکینک تک مرمت کے لیے پہنچایا اور خود فلم اور سکرین پلے رائٹر کے کے شکلا کے گھر پیدل مار چ کرتے ہوئے گھنٹوں بعد تھکے تھکے قدموں کے ساتھ پہنچے۔

کے کے شکلا، شکتی کپور کے قریبی دوست تھے جن کی معرفت انہیں فلموں میں کوئی چھو ٹا موٹا کردار مل جاتا۔

شکتی کپور کو کے کے شکلا نے بتایا کہ وہ ان دنوں ایک بڑے بجٹ کی بڑی سٹار کاسٹ والی فلم ’قربانی‘ کی کہانی لکھ رہے ہیں۔ شکتی کپور کے لیے اگلی خبر کسی بم دھماکے سے کم نہیں تھی کہ کے کے شکلا نے ہدایتکار سے شکتی کپور کی سفارش کی لیکن اس نے مسترد کردیا۔ کے کے شکلا کا کہنا تھا کہ شکتی کپور کا بالی وڈ میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے وہ واپس دہلی چلے جائیں۔

شکلا نے بتایا کہ ’قربانی‘ کے لیے انہوں نے ہدایتکارکو کسی طرح راضی کرلیا تھا لیکن آج ہی اس نے منع کردیا۔

شکتی کپور نے وجہ دریافت کی تو بتایا گیا کہ ہدایتکار کو کوئی بلی آنکھوں والا وہ لمبا لڑکا چاہیے جس نے اس کی گاڑی کو ٹکر ماری ہے۔

شکتی کپور کے کانوں میں شکلا کے یہ الفاظ بھی پڑے کہ فلم کے ہدایتکار فیروز خان ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ لڑکا جب آج وحشت اور غضب ناک آنکھوں کے ساتھ گاڑی سے اترا اور جو اس کی خوف زدہ کرنے والی چال تھی۔ اس نے فیروزخان کو ڈرا ہی دیا اور اب وہ ضد پکڑے بیٹھے ہیں کہ انہیں تو وہی نوجوان چاہیے جو جب جب اسکرین پر آئے دیکھنے والے سہم جائیں۔

شکتی کپور نے کم و بیش چلا کر کہا کہ وہی ہیں وہ جن کی گاڑی سے فیروز خان کی گاڑی کی ٹکر ہوئی تھی۔ شکتی کپور نے اب سارا واقعہ کے کے شکلا کے گوش گزار کیا۔

اب طے شدہ وقت کے مطابق کے کے شکلا، شکتی کپور کو فیروز خان کے سامنے لے کر پہنچ گئے۔ فیروز خان  اپنے مخصوص انداز میں شکتی کپور سے ملے اور پوچھ ہی لیا کہ اس دن حادثے کے وقت شکتی کپور انہیں برا بھلا تو کہہ رہے ہوں گے۔

شکتی کپور کا کہنا تھا کہ بالکل بھی نہیں، ہاں غصہ صرف اس لیے آیا تھا کیوں کہ وہ ایک غریب اداکار ہیں اور گاڑی کے ذریعے ہی ان کی بھاگ دوڑ ہوتی تھی۔

فیروز خان کہہ رہے تھے کہ وہ کسی بھی کردار کے لیے تن تنہا کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔ ان کی پوری ٹیم ہے۔ اب شکتی کپور کے حتمی فیصلے کے لیے ان کی معاونت لینی ہوگی۔ ہفتے کو وہ گھر پر ایک پارٹی رکھ رہے ہیں جس میں شکتی کپور کو بھی مدعو کیا گیا۔ اس پارٹی کے بعد ہی کاسٹ کا حتمی اعلان کیا جائے گا۔

شکتی کپور کے لیے اب نئی آزمائش یہ تھی کہ انہیں ہفتے تک انتظار کرنا تھااور ایک ایک دن ان پر بھاری گزر رہا تھا۔ دھڑکا یہی لگا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ انہیں پھر مسترد کردیا جائے۔

ان گنت خدشات کے ساتھ پارٹی والے دن جب وہ مقررہ مقام پر پہنچے تو ایک خلقت تھی۔ ایسے میں چند گھنٹوں بعد شکتی کپور کو یہ خوش خبری سنائی گئی کہ انہیں فیروز خان نے فلم ’قربانی‘ کے لیے منتخب کرلیا ہے۔

شکتی کپور کو معلوم تھا کہ یہی اپنی شناخت بنانے کے لیے آخری موقع ہے۔ فلم ’قربانی‘ کی عکس بندی شروع ہوئی تو شکتی کپور نے دل و جان سے اداکاری کے اپنے تمام تر تجربے کو بروئے کار لا کر حقیقت کا رنگ بھرنے کی کوشش کی۔

ونود کھنہ، فیروز خان، زینت امان اور امجد خان کی یہ فلم ’قربانی‘ چار جولائی 1980کو  نمائش پذیر ہوئی تو اس نے ریکارڈ کامیابی حاصل کی۔ فلم کے گانوں نے دھوم مچائی جبکہ اسی تخلیق کے ذریعے نازیہ حسن بھی مرکز نگاہ بنیں۔

شکتی کپور کی اداکاری کا معیار واقعی اپنے عروج پر رہا۔ وہ جب جب سکرین پر آئے دیکھنے والوں پر کپکپی طاری ہوجاتی۔ فلم میں وکرم سنگھ کا کردار نبھانے والے شکتی کپور نے اپنی اداکاری کے ذریعے ’قربانی‘ میں شامل امریش پوری تک کو پس پردہ کردیا۔

ہدایتکاروں اور پروڈیوسرز کو ایک نیا ولن شکتی کپور کی صورت میں مل گیا تھا۔ بس پھر کیا تھا ’قربانی‘ کے بعد تو جیسے شکتی کپور راتوں رات اسٹار بن چکے تھے۔ اب ولن کے لیے ہر کسی کے ذہن میں صرف شکتی کپور کا نام ہی آتا۔

آنے والے برسوں میں شکتی کپور ایک مستند ولن کے طور پر شناخت کیے گئے۔ لیکن 90کی دہائی میں دیکھنے والوں نے ان کا ایک نیا روپ بطور کامیڈین دیکھا۔ قادرخان، گووندا اور شکتی کپور کی اس مثلث نے بہترین مزاحیہ فلموں کا تحفہ دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بطور ولن ہیرو کی زندگی کو عذاب بنانے والے شکتی کپور کی جب بھی فلم فیئرایوارڈز کے لیے نامزدگی ہوئی تو وہ بطور کامیڈین ہی ہوئی۔

پانچ مرتبہ نامزدگیوں میں انہوں نے فلم ’راجا بابو‘ کے لیے بہترین کامیڈین کا پہلا اور آخری فلم فیئر ایوارڈ جیتا۔ فلم ’انداز اپنا اپنا‘ میں کرائم ماسٹر گوگو کا کردار تو جیسے آج بھی ان کی پہچان ہے۔

شکتی کپور نے پدمنی کولہا پوری کی بہن سے بیاہ رچایا جبکہ اب ان کی بیٹی شردھا کپور بالی وڈ کی ٹاپ کلاس اداکاراؤں میں شمار ہوتی ہیں۔ شکتی کپور حالیہ برسوں میں فلموں سے دور ہوچکے تھے اب لگ بھگ دو سال بعد ان کی رنبیر اور انیل کپور کے ساتھ  فلم ’اینیمل‘ آئی ہے جس میں ان کے سنجیدہ کردار کو سراہا جا رہا ہے جبکہ اس تخلیق نے کمائی کے نئے ریکارڈ بھی بنائے ہیں۔  

شکتی کپور اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ جو آپ کی قسمت میں لکھا ہوتا وہ آپ کوملتا تو ضرور ہے لیکن کچھ ڈرامائی موڑ کھاتے ہوئے۔

اگر اس روز فیروز خان اوور ٹیکنگ کرتے ہوئے ان کی گاڑی سے اپنی گاڑی نہ ٹکراتے تو ان کا فلم کیریئر بھی بس مختلف سٹوڈیوز کے دروازوں پر ٹکر ہی مار رہا ہوتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ