جب دوست کی غم زدہ کہانی سے فلم ’جانے بھی دو یارو‘ کا آئیڈیا ملا

کندن شاہ نے سوچا کہ فوٹو گرافر کی زندگی پر فلم بناتے ہیں جس میں کم و بیش وہی واقعات شامل کیے جائیں گے جو ان کے دوست نے بیان کیے تھے۔

 فلم ’جانے بھی دو یارو‘ کا پوسٹر (پرائم ویڈیو ویب سائٹ)

کندن شاہ کے فوٹوگرافر دوست روی آہوجا انہیں اپنی غم زدہ کہانی سنا رہے تھے۔ بے چارے بتا رہے تھے کہ زندگی میں کس قدر مشکلات سہہ رہے ہیں۔

’سرکاری محکموں کا چھوٹا موٹا کام حاصل کرتا ہوں لیکن معاملہ جب ادائیگی تک پہنچتا ہے تو ایک طویل اور صبرآزما انتظار اور آزمائش ہر قدم پر ہوتی ہے۔ بنا حصہ دیے کوئی کام نہیں ملتا۔‘

کندن شاہ بہت غور سے ان کی بات سن رہے تھے۔ ایسے میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تھک ہار کر سٹوڈیو بھی کھولا، وہ بھی ٹھپ ہوگیا کیونکہ آئے دن کسی نہ کسی مصیبت سے دوچار ہونا پڑ جاتا تھا۔

روی آہوجا ایک دن کے لیے بمبئی میں کندن شاہ کے پاس ٹھہرے تھے اور رات بھر وہ یہی دکھ بھری بپتا سناتے سناتے نجانے کب نیند کی وادیوں کے مہمان بن گئے۔

شروع شروع میں تو کندن شاہ مسکراتے رہے لیکن پھر ان کا ذہن ایک اور منصوبے پر کام کرنے لگا۔ پونا کے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا سے انہوں نے ہدایت کاری کی تربیت حاصل کی تھی اور ان دنوں نیشنل فلم ڈویلپمنٹ کارپوریشن آف انڈیا (این ایف ڈی سی) کے لیے ایک فلم بنانے کا ٹاسک ملا تھا۔ فوٹوگرافر دوست کی ٹریجڈی سے بھری داستان سننے کے بعد ان کے ذہن میں ایک فلم کا خاکہ ابھرنے لگا۔

ذاتی تجربات فلم کا حصہ

کندن شاہ نے سوچا کہ فوٹو گرافر کی زندگی پر فلم بناتے ہیں جس میں کم و بیش وہی واقعات شامل کیے جائیں گے جو ان کے دوست نے بیان کیے تھے۔ اب اسی عرصے میں کندن شاہ جو اپنی سوسائٹی میں ایک عہدہ بھی رکھتے تھے انہیں معلوم ہوا کہ علاقے میں پینے کے پانی میں گٹر کا پانی مل گیا ہے، جبھی وہ شکایت لے کر محکمہ بلدیات تک پہنچے تو ان کی روداد سننے کے بعد افسرنے ایک ادا سے شاہانہ انداز میں کہا کہ ’یہ کون سی بڑی بات ہے۔ بمبئی میں تو ہر کوئی گٹر کا پانی پی رہا ہے، اگر آپ کی سوسائٹی میں ایسا ہے تو کوئی انہونی نہیں۔‘

سرکاری بابو کے اس روکھے پھیکے تکبرانہ رویے اور بے حسی پر کندن شاہ تلما کر رہ گئے۔

چونکہ کندن شاہ کو بلدیاتی محکمے میں گٹر کی شکایت کرنے کا تلخ تجربہ ہوا تھا، اسی لیے انہوں نے فلم کے ایک منظر میں اس کا تذکرہ کیا جس میں ایک کردار، کمشنر کی وفات پر کہتا ہے کہ ’کسی دیس کی علامتی پہچان اگر کسی چیز سے ہوتی ہے تووہ گٹر ہے، کمشنر صاحب گٹر کے لیے جیے، اور گٹر کے لیے مرے اور مرتے ہوئے ان کے آخری شبھد تھے، گٹر گٹر گٹر۔‘

کم بجٹ کی بڑی فلم

کندن شاہ نے اب اپنی کہانی میں ایک نیا رنگ یہ شامل کر دیا کہ دو فوٹو گرافرز ہیں، جو نام اور دولت کمانے کی فکر میں ہیں لیکن بدعنوان اور بے ایمان سرکاری افسران اور شاطر سیاست دانوں  کے نرغے میں پھنس جاتے ہیں۔ یہی سوچ کر اب کندن شاہ نے باقاعدہ کہانی لکھنا شروع کی۔ اب اسی عرصے میں بمبئی میں ایک پل ناقص میٹریل کی بنا پر زمین بوس ہوا تو کندن شاہ نے اسی کے گرد اپنی کہانی کو گھمانا شروع کردیا۔

کندن شاہ کی کہانی کم و بیش تیار تھی، جس کی نوک پلک سنوارنے میں رانجیت کپور نے اپنی خدمات پیش کیں جبکہ سکرین پلے لکھنے میں کندن شاہ کی معاونت سدھیر مشرا اور ستیش کوشک نے کی۔ سکرپٹ جب تیار ہوگیا تو اسے این ایف ڈی سی میں جمع کروایا گیا، جس نے اس فلم کا بجٹ سات سے آٹھ لاکھ روپے منظور کیا۔

کندن شاہ کو یقین تھا کہ وہ اس مختصر سے بجٹ میں بھی بہترین تخلیق پیش کرسکتے ہیں۔ فلم کا نام ’جانے بھی دو یارو‘ تجویز کیا گیا، جس میں مرکزی کرداروں کے لیے نصیر الدین شاہ اور روی باسوانی کو پیش کیا گیا۔

یہی وہ دو فوٹوگرافرز تھے جن کے بارے میں فلم میں دکھایا گیا کہ وہ اصول پسند اور ایمان داری کی اپنی الگ  دنیا میں رہتے ہیں جو اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ جیت ایک روز سچ کی ہوتی ہے لیکن پھر طاقتور اور بدعنوان سرکاری افسران، سیاست دان  اور ٹھیکداروں کے گٹھ جوڑ کے چنگل میں ایسے پھنستے ہیں کہ ایک کے بعد ایک مشکل سے پالا پڑتا رہتا ہے۔

ان معصوم اور بھولے بھالے فوٹوگرافرز کو ایک خاتون یعنی شوبھا (بھکتی برو) ایسے سبز باغ دکھاتی ہیں کہ انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ان کے ہاتھوں استعمال ہوگئے ہیں۔

نصیر الدین شاہ فلم کے ہیرو تھے اور انہی کا معاوضہ سب سے زیادہ یعنی 15 ہزار روپے تھا۔ وہ بھی اس لیے کیونکہ اس وقت تک نصیر الدین شاہ اپنا نام خوب بنا چکے تھے۔ کندن شاہ نے ’جانے بھی دو یارو‘ کے ہر منظر میں معاشرے میں ہونے والے مسائل کو طنزیہ انداز میں پیش کیا اور انہوں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ مفادات کا جب ٹکراؤ ہوتا ہے تو بدعنوان افراد لاکھ اختلافات کے باوجود ایک ہوجاتے ہیں۔

فلم میں جہاں نصیر الدین شاہ اور روی باسوانی تھے وہیں ستیش کوشک، نینا گپتا، بھکتی برو،  پنکج کپور اور اوم پوری نمایاں رہے۔ فلم کا ہر منظر کامیڈی سے بھرا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کندن شاہ کا کہنا تھا کہ بعض مناظر لاجک سے عاری تھے، بس ہنسنے ہنسانے کے لیے پیش کیے گئے۔ اب ایسے میں نصیر الدین شاہ کئی مناظر پر اعتراض کرتے۔ انہوں نے سیٹ پر ناراضگی کا اظہار بھی کیا کہ ان مناظر یا مکالمات کی کچھ تو ’تُک‘ پیش کی جائے۔

کندن شاہ کا اصرار تھا کہ اگر وہ لاجک بیان کرنے بیٹھے تو فلم کا دورانیہ بڑھ جائے گا۔ ان کا مقصد تفریحی اور طنزیہ انداز میں معاشرے کا اصل روپ دکھانا ہے۔ نصیر الدین شاہ کا یہ اعتراض اس وقت ختم ہوا جب فلم کی نمائش ہوئی۔

’جانے بھی یارو‘ دیکھ کر نصیر الدین شاہ کو احساس ہوا کہ واقعی کندن شاہ درست کہہ رہے تھے، جبھی انہوں نے باقاعدہ خط لکھ کر اپنے رویے کی معذرت کی۔ صرف ایک نصیر الدین شاہ ہی نہیں فلم کے دیگر ستارے بھی بسا اوقات یہ سوچتے تھے کہ وہ ایک ایسی فلم میں کیوں کام کر رہے ہیں، جس کی عکس بندی کرواتے ہوئے انہیں جب ہنسی نہیں آتی تو فلم بینوں کو کیا آئے گی۔ اسی بات کا جب اظہار کندن شاہ سے کیا جاتا تو وہ یہی کہتے آپ لوگ صرف اداکاری پر توجہ دیں، باقی کام ان کا ہے۔

ستیش کوشک کی کوشش

آنجہانی ستیش کوشک کے مطابق انہوں نے سکرین پلے لکھنے میں رائٹر رانجیت کپور کی مدد کی۔ کوئی بھی مکالمہ یا منظر پہلے بول کر ٹیپ ریکارڈ پر ریکارڈ کیا جاتا، یعنی باقاعدہ اسے اسی انداز میں پیش کیا جاتا جیسے فلم میں ہوگا۔ اس کے بعد ستیش کوشک اور رانجیت کپور اس کو ٹیپ ریکارڈر پر سنتے اور پھر اسے کاغذ پر اتارا جاتا۔ اس عرصے میں رنجیت اور ستیش کوشک اس منظر میں اور بہتری اور نکھار لاتے۔

فلم کا بجٹ چونکہ انتہائی کم تھا، اسی لیے بیشتر اداکار’جانے بھی دو یارو‘ کے لیے لباس وہی استعمال کرتے جو عام زندگی میں زیب تن کرتے۔ نینا گپتا کا کہنا تو یہ بھی ہے کہ کم بجٹ کی وجہ سے لنچ یا ڈنر کے پیسے بھی فنکار اپنی جیب سے ادا کرتے۔

فلم کے بیشتر حصے میں لاش کا روپ دھارنے والے ستیش شاہ کا کہنا ہے کہ ’جانے بھی یارو‘ کا بجٹ چونکہ بہت کم تھا اسی لیے جب فلم کا پریمیئر بمبئی کے میٹرو سینیما میں ہوا تو ہدایت کار کندن شاہ نے سبھی فنکاروں کے لیے شرط رکھی تھی کہ وہ ڈیڑھ سو روپے کا ٹکٹ خرید کر فلم دیکھیں گے۔

ستیش شاہ کے مطابق ان کا کردار بہت طاقت ور اور مزاحیہ تھا اور لاش بننے پر سب سے دلچسپ تبصرہ ایک اخبار نے یہ لکھا کہ ’ستیش شاہ مردہ بن کر زیادہ بہتر اداکاری دکھاتے ہیں، بہ نسبت زندہ میں۔‘ ستیش کوشک کے مطابق پانچ ہزار روپے ملے، جس میں مکالمے لکھنے کی بھی اجرت شامل تھی جبکہ آنے جانے کے لیے یومیہ 10 روپے معاوضہ ملتا۔

ابتدا میں ہی  کامیابی

انتہائی مختصر عرصے میں کندن شاہ نے فلم ’جانے بھی دو یارو‘  بنا کر سینیما گھروں میں 12 اگست 1983 کو سجائی۔ چونکہ فلم میں بدعنوان سرکاری افسروں اور موقع پرست سیاست دانوں کی چالاکیوں اور لالچ کی عکاسی کی گئی تھی تو دیکھتے ہی دیکھتے فلم مقبول ہوتی گئی۔ ہر ایک کو ایسا لگا کہ سسٹم میں جو خرابیاں ہیں وہ اس تخلیق میں ایسی خوبصورتی سے بیان کی گئی ہیں اور جیسے ہی ان کی فلم کو دو نومبر 2012 کو 29 سال مکمل ہونے پر ایک بار پھر سینیما گھروں کی زینت بنایا گیا تو فلم بینوں کا رش تھا لگ گیا۔

فلم کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ اس کا ہر منظر عوام میں مقبول ہوا۔ کچھ سچویشن اوٹ پٹانگ ضرور تھیں لیکن یہ فلم بینوں کو لوٹ پوٹ کرنے کے لیے کافی تھیں۔ مثال کے طور پر ایک دوسرے کا تعاقب کرتے کرداروں کی ’مہا بھارت‘ کے سٹیج ڈرامے میں اچانک انٹری۔ ایسے میں سٹیج ڈرامے میں ہونے والی نوک جھوک بڑی دلچسپ ہے۔

ذرا تصور کریں کہ ’مہا بھارت‘ میں اکبر بادشاہ تک کی رونمائی ہوجاتی ہے جو دلچسپی سے بھرپور تھی۔ اس منظر کے بارے میں ستیش کوشک کا کہنا تھا کہ یہ ان کا آئیڈیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک روز بمبئی کے بازار میں گھوم رہے تھے جہاں انہوں نے لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد اور مغل اعظم کے سستے رنگ برنگے لباس دیکھے جنہیں دیکھ کر انہیں خیال آیا کہ ’جانے دو بھی دو یارو‘ کے کلائمکس میں انہی کرداروں کی آمیزش ہونی چاہیے۔

انوپم کھیر کے مناظر اڑا دیے گئے

انوپم کھیر کی یہ بطوراداکار پہلی فلم ہوسکتی تھی جس میں وہ اجرتی قاتل کا کردار کر رہے تھے۔ ان کے 10 منٹ کے مناظر عکس بند کرلیے گئے لیکن جب کندن شاہ ایڈیٹنگ کے عمل سے گزرے تو انہوں نے یہ سوچ کر یہ مناظر قطع و برید کا نشانہ بنائے کہ یہ فلم کو طوالت کا شکار کر رہے ہیں۔ انوپم کھیر کو جب اس بات کا معلوم ہوا تو وہ کندن شاہ سے خفا نہیں ہوئے، جبھی چند برسوں بعد ہدایت کار نے انوپم کھیرکو اپنی ایک اور سپر ہٹ فلم ’کیا کہنا‘ میں اہم کردار میں پیش کر کے انہیں خوش کر دیا۔

کندن شاہ نے ہی نہیں اداکاروں نے بھی سوچا نہیں تھا کہ یہ فلم کلاسک کامیڈی ثابت ہوگی۔ کندن شاہ کو اندرا گاندھی ایوارڈ ملا جبکہ روی باسوانی کو بہترین کامیڈین کا۔ ’جانے بھی دو یارو‘ کی فلم فیئر ایوارڈز کے لیے مجموعی طور پر چار نامزدگیاں ہوئیں۔ اپنی پہلی کاوش کی پذیرائی کے بعد کندن شاہ نے ٹی وی کے لیے نکڑ اور واگلے کی دنیا جیسے شاہکار بنائے جبکہ ان کی دیگر فلموں میں ’کبھی ہاں کبھی ناں‘ اور ’کیا کہنا‘ نمایاں ہیں۔

فلم کے لیے ٹائٹل سونگ ’جانے بھی دو یارو‘ رنجیت کپور نے لکھا جسے کلائمکس میں عکس بند کرنا تھا لیکن پھر کندن شاہ نے اس گیت کے بجائے ’ہم ہوں گے کامیاب ایک دن‘ کو اس منظر میں پیش کیا جب ایمانداری سے بدعنوان افسران کا پردہ چاک کرنے والے فوٹوگرافرز خود سزا کے مرتکب قرار دیے جاتے ہیں اور جیل کی طرف رخ کرتے ہیں اور پس منظر میں یہ گیت بجتا ہے۔

’جانے بھی دو یارو‘ کی مجموعی نمائش کو 40 سال کا عرصہ بیت گیا ہے لیکن آج بھی اسے ایورگرین کامیڈی کلاسک فلم کا درجہ حاصل ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ