عبدالفتاح السیسی نے مصر کے صدر کے طور پر تیسری مدت کے لیے ایک ایسے انتخاب میں کامیابی سمیٹی ہے جہاں انہیں کسی سخت مقابلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نیشنل الیکشن اتھارٹی کے مطابق پیر کو جاری ہونے والے نتائج میں عبدالفتاح السیسی نے 89.6 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔
یہ انتخابی نتائج ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب مصر بڑھتے ہوئے معاشی بحران سے نبردآزما ہے اور قاہرہ جزیرہ نما صحرائے سینا سے متصل غزہ کی تنگ پٹی میں جنگ سے پھیلنے والے خطرے کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
عرب دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے اس شمالی افریقی ملک میں بہت سے لوگوں نے 10 سے 12 دسمبر تک جاری رہنے والے انتخابات کے بارے میں لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ پہلے سے طے شدہ نتیجہ تھا۔‘
روئٹرز کے مطابق سرکاری اور حکومتی کنٹرول والے مقامی میڈیا پر ٹرن آؤٹ کو بڑھانے کے لیے سخت دباؤ ڈالا گیا جو کہ الیکشن اتھارٹی کے مطابق 66.8 فیصد تک پہنچ گیا۔ یہ 2018 میں گذشتہ صدارتی انتخابات میں ریکارڈ کیے گئے 41 فیصد ٹرن آؤٹ سے کئی زیادہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ خطے میں جاری تنازعات کے باعث السیسی کو زیادہ مقبولیت ملی جنہوں نے طویل عرصے سے خود کو ایک اس غیر مستحکم خطے میں استحکام برقرار رکھنے والے رہنما کے طور پر پیش کیا۔ یہ ایک ایسی دلیل بھی ہے جو خلیجی اور مغربی اتحادیوں کی جانب سے ان کی حکومت کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے بھی کارگر ثابت ہوئی ہے۔
السیسی نے نتائج کے اعلان کے فوراً بعد اپنے خطاب میں کہا کہ ’مصری شہری نہ صرف اگلی مدت کے لیے اپنا صدر منتخب کرنے کے لیے بلکہ پوری دنیا کے سامنے اس غیر انسانی جنگ کو مسترد کرنے کے لیے ووٹ ڈالنے آئے تھے۔‘
انہوں نے اسرائیل اور فلسطینی گروپ حماس کے درمیان جنگ کو مصر کا بنیادی چیلنج قرار دیا۔
دو ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری اسرائیلی جارحیت سے بحیرہ روم کے کنارے واقع غزہ کی پٹی میں 19 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی اموات ہوچکی ہیں جب کہ کل آبادی کا 85 فیصد حصہ بے گھر ہو چکا ہے۔ اس کے باوجد مصر نے کہا ہے کہ وہ غزہ کے شہریوں کو سرحد پار سے انخلا کی اجازت نہیں دے گا۔
ان انتخابات میں تین دیگر امیدوار شامل تھے، جن میں سے کوئی بھی مقبول رہنما نہیں تھا۔ ان کے سب سے ممکنہ سخت حریف اکتوبر میں انتخابی دوڑ سے یہ کہتے ہوئے دستبردار ہو گئے تھے کہ سرکاری اہلکاروں اور غنڈوں نے ان کے حامیوں کو نشانہ بنایا ہے، تاہم الیکشن اتھارٹی نے ان الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔
ایک آزاد گروپ ای آئی پی آر کے سربراہ حسام بہجت نے کہا کہ ’کوئی انتخابات نہیں تھے، السیسی نے کسی بھی سنجیدہ امیدوار کو انتخاب لڑنے سے روکنے کے لیے پوری ریاستی مشنری اور سکیورٹی اداروں کا استعمال کیا۔‘
ان کے بقول: ’بالکل پچھلی بار کی طرح السیسی نے اپنے مخالفین کو خود چُنا، جنہوں نے ان کی تباہ کن پالیسیوں پر خاموش اختیار کی یا کوئی تنقید نہیں کی۔‘
روئٹرز کے نامہ نگاروں کے مطابق ووٹرز کو پولنگ سٹیشنوں میں لے جایا گیا، (دیگر کو راغب کرنے کے لیے) کھانے کے تھیلے حوالے کیے گئے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ ان پر آجروں کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا کہ وہ (السیسی کو) ووٹ ڈالیں۔ سرکاری میڈیا باڈی نے کہا کہ ووٹوں کے بدلے رقم یا سامان کی فراہمی ایک مجرمانہ جرم ہے۔
السیسی کا سیاسی سفر
عبدالفتاح السیسی ایک سابق فوجی جنرل ہیں جنہوں نے 2013 میں مصر کے پہلے جمہوری طور پر منتخب رہنما اخوان المسلمون کے سربراہ محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے سیاسی میدان میں اختلاف رائے کے خلاف ایک بڑے کریک ڈاؤن کی قیادت کی ہے۔
وہ 2014 میں ملک کے صدر منتخب ہوئے اور 2018 میں ایک بار پھر اس منصب پر فائز ہوئے۔ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے 2019 میں آئین میں ترمیم کی جس میں صدارتی مدت کو چار سے بڑھا کر چھ سال کر دیا گیا اور السیسی کو تیسری مدت کے لیے انتخابات لڑنے کی اجازت دی گئی۔
کچھ ماہرین ان کی جانب سے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کی تعریف کرتے ہیں، جس میں قاہرہ کے مشرق میں ایک نئے دارالحکومت کی تعمیر شامل ہے، جس کے بارے میں السیسی نے کہا تھا کہ یہ ’نئی جمہوریہ‘ کے آغاز کی علامت ہے۔
تاہم دیگر ماہرین اس مہنگے منصوبے کو اسراف کے طور پر دیکھتے ہیں۔ آسمان کو چھوتی مہنگائی، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی قلت اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ نے ان کی اقتصادی پالیسی پر تنقید کو ہوا دی ہے۔