مصر میں اب فوج بھی الیکشن لڑ سکے گی، قانون منظور

مصر کی پارلیمان نےایسی ترامیم کی منظوری دی ہے جن کے تحت حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی اہلکار صرف فوج کی اجازت کے ساتھ ہی صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔ 

السیسی پہلی مرتبہ 2014 میں صدر منتخب ہوئے اور پھر مارچ 2018 میں دوسری مرتبہ 97 فیصد سے زائد ووٹ لے کر منتخب ہوئے (اے ایف پی)

مصر کی پارلیمان نےایسی ترامیم کی منظوری دی ہے جن کے تحت حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی اہلکار صرف فوج کی اجازت کے ساتھ ہی صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔ 

یہ نئی قانون سازی ایک ایسے وقت کی گئی ہے جب ایک برس قبل ہی ایک آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ پہلے ہی سابق آرمی چیف اور موجودہ صدر عبد الفتاح السیسی کے 2030 تک اقتدار میں رہنے کی راہ ہموار کر چکی تھی۔ 

توقع کی جا رہی ہے کہ ان نئی ترامیم سے فوجی اہلکاروں کے لیے کسی بھی انتخابات میں حصہ لینا تقریباً ناممکن بنا دیا جائے گا، تاکہ ان کو السیسی کے خلاف مقابلے میں حصہ لینے سے روکا جا سکے۔

مصر کہنے کو تو ایک جدید جمہوری ملک ہے تاہم ملک کا ماضی فوجی آمروں سے بھرا پڑا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مصر کے دو صدور کے سوا باقی تمام صدر فوجی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔

فوج کا مصر کی عوامی زندگی میں بہت عمل دخل رہا ہے۔ فوج کے سابقہ دو اعلیٰ ترین افسران اس وقت السیسی کی کابینہ میں وزرا کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

السیسی نے 2013 میں منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے کے لیے فوج کی قیادت کی تھی جس کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق السیسی پہلی مرتبہ 2014 میں صدر منتخب ہوئے اور پھر مارچ 2018 میں دوسری مرتبہ 97 فیصد سے زائد ووٹ لے کر منتخب ہوئے۔

یہ ترامیم فوجی افسران کو اپنی ملازمت کے دوران عوام کے سامنے معلومات ظاہر کرنے یا مسلح افواج کی سپریم کونسل سے اجازت کے بغیر سیاسی جماعتوں کے ساتھ منسلک ہونے سے بھی روکتی ہیں۔

 مسلح افواج کی سپریم کونسل ملک کے سب سے سینیئر جرنیلوں پر مشتمل فوجی کونسل ہے۔

               

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا