انگلینڈ میں انسولین سے پہلے شخص کے علاج کو 100 سال مکمل ہو گئے ہیں، جس نے ملک میں ذیابیطس کا طریقہ علاج کار بدل کر رکھ دیا تھا۔
ادویات کی تاریخ کا یہ سنگ میل 1923 میں یونیورسٹی آف شیفیلڈ کے میڈیکل سکول میں سرسٹورٹ گڈوِن نامی مریض پر مکمل ہوا، جو شیفیلڈ سٹیل انڈسٹری سے وابستہ اور انسان دوست تھے۔
اس وقت ذیابیطس کی تشخیص بنیادی طور پر ’سزائے موت‘ تھی، جس کے بعد متوقع عمر زیادہ سے زیادہ ایک سے دو سال تھی۔
ذیابیطس کے دوران واحد علاج بھوکے رہنا تھا، جیسا کہ ایلن غذا جس نے مریض کی خوراک 24 گھنٹوں میں کم سے کم 400 کیلوریز تک محدود کر دی تھی۔
لیکن سر سٹورٹ نے انسولین کے کلینیکل ٹرائل میں شریک ہونے کے لیے پیسے دیے اور چھ ماہ کے بعد وہ کام پر واپس آ گئے اور ان کے ساتھی انہیں پہچان بھی نہ سکے۔
دوران علاج انہوں نے نیکی کرتے ہوئے متعدد دیگر مریضوں کے علاج کے پیسے بھی دیے۔
یونیورسٹی آف شیفیلڈ کے سکول آف میڈیسن اینڈ پاپولیشن ہیلتھ کی پروفیسر شیلا فرانسس نے پی اے نیوز ایجنسی کو بتایا: ’اب ہم آنکھوں اور پیروں پر اثرات کے بارے میں بات کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی چیز واقعی نہیں ہوئی کیونکہ لوگ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہے۔ واقعی، یہ سزائے موت تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’بنیادی طور پر، یہ سزائے موت تھی کیونکہ اسے انسولین کے استعمال تک صرف بھوک سے کنٹرول کیا گیا تھا، لہذا لوگ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہتے تھے۔‘
پروفیسر شیلا کے مطابق: ’پوری کہانی میں نیک نیتی ایک مضبوط دھاگہ ہے، جس میں گڈوِن کو کلینیکل ٹرائل میں لیا گیا تھا۔
’لہذا، گڈون کو نیکی نظر آئی اور پھر انہوں نے شیفیلڈ کے لوگوں کے علاج کے لیے فنڈز فراہم کرکے ان کے لیے نیک نیتی کا مظاہرہ کیا۔
’اور پھر انہوں نے شہر کے اندر اور برطانیہ کے اندر بڑے فلاحی عطیات دیے۔‘
پروفیسر فرانسس نے مزید کہا کہ 1886 میں پیدا ہونے والے سر سٹورٹ کو ممکنہ طور پر ٹائپ ون ذیابیطس کی تشخیص اس وقت ہوئی تھی جب وہ 30 سال کے تھے، لیکن انسولین کے علاج کی بدولت وہ 83 سال کی عمر تک زندہ رہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ آرکائیو کے حالیہ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ علاج ممکنہ طور پر فروری میں شروع ہوا تھا۔
1923 کے ٹرائل میں استعمال ہونے والی انسولین گائے کے لبلبے کا ٹشوز استعمال کرتے ہوئے شیفیلڈ میں بنائی گئی تھی۔
اس سے ایک سال قبل کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں ایک نوجوان لڑکے کا علاج کیا گیا تھا لیکن یہ دریافت 1921 میں کی گئی تھی۔
برطانیہ کے پہلے شخص کا اگست 1922 میں ایڈنبرا میں علاج کیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ذیابیطس یوکے (ادارہ) کے مطابق آج برطانیہ میں 10 لاکھ سے زائد افراد انسولین پر انحصار کرتے ہیں۔
شیفیلڈ سے تعلق رکھنے والی 38 سالہ ہنا پوسٹلز کو 26 سال کی عمر میں ٹائپ ون ذیابیطس کی تشخیص ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے دسمبر 2011 میں ٹائپ ون ذیابیطس کی تشخیص ہوئی تھی اور اس کے بعد سے مجھے زندہ رہنے کے لیے روزانہ پانچ بار خود کو انسولین کا انجیکشن لگانا پڑتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’100 برس قبل شیفیلڈ میں پہلے کلینیکل ٹرائلز کے بعد سے ذیابیطس کے علاج میں بہت ترقی ہوئی ہے اور یہاں تک کہ میری تشخیص کے بعد والے 12 برسوں میں بھی۔
’پہلے مجھے اپنے خون میں گلوکوز کی جانچ کے لیے اپنی انگلی میں سوئی لگائی پڑتی تھی، لیکن اب میں نے اپنے بازو پر ایک سینسر پہن رکھا ہے جو خود بخود (گلوکوز کی) مقدار میرے فون پر بھیج دیتا ہے۔
’میں جلد ہی انسولین کے انجکشن لگانے کی بجائے ایک انسولین پمپ کا استعمال شروع کر دوں گی، میرا پمپ اور سینسر ایک دوسرے جڑے ہوں گے تاکہ میرے خون میں گلوکوز کی سطح کو صحت مند حد میں رکھنے میں مدد مل سکے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہ سوچنا قابل ذکر ہے کہ انسولین کی دریافت اور پہلے کلینیکل ٹرائلز سے قبل ٹائپ ون ذیابیطس مریضوں کے لیے موت کی سزا تھی لیکن ہم 100 سال بعد ایک ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں زیادہ سے زیادہ مریض ایسی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرنے کے قابل ہیں جو انہیں بنیادی طور پر ’مصنوعی لبلبہ‘ فراہم کرتی ہے۔
’یہ بہتری لوگوں کی زندگیوں میں حقیقی فرق ڈالتی ہے، ایک ایسی حالت کے ساتھ زندگی گزارنے کے بوجھ کو کم کرتی ہے، جسے سنبھالنا بہت مشکل اور تھکا دینے والا ہوسکتا ہے۔
’شیفیلڈ سے ذیابیطس کا علاج کروانے والے مریض کی حیثیت سے، مجھے واقعی فخر محسوس ہوتا ہے کہ اس شہر اور یونیورسٹی نے انسولین کے پہلے برطانوی کلینیکل ٹرائلز میں بہت اہم کردار ادا کیا اور اس کے بعد سے ہونے والی تحقیق میں شامل ہر شخص کی شکر گزار ہوں۔‘
تاہم، پروفیسر فرانسس نے کہا کہ زندگی بچانے والے علاج تک دنیا بھر میں مساوی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے وضاحت کی: ’میرے خیال میں ہماری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ ان مختلف ادویات تک دنیا بھر میں مساوی رسائی ہو اور دوا ساز کمپنیوں کو چاہیے کہ مناسب قیمت پر دنیا بھر میں انسولین کی دستیابی کا انتظام کریں، یہ اب تک کی سب سے کامیاب ادویات میں سے ایک ہے۔‘
ذیابیطس یوکے کے ایک ترجمان کا کہنا تھا، ’انسولین کی دریافت سے قبل ٹائپ ون ذیابیطس سزائے موت تھی، لوگ ایک یا دو سال سے زیادہ زندہ نہیں رہتے تھے۔
’انسولین کی دریافت انقلابی تھی اور اس نے دنیا بھر میں لاکھوں زندگیاں بچائی ہیں، ایک مہلک حالت کو ایک ایسی چیز میں تبدیل کر دیا ہے جس کو سنبھالا جا سکتا ہے۔‘
’اس کامیابی کے بعد والے برسوں میں، ہم نے ٹائپ ون ذیابیطس میں مدافعتی نظام کے کردار اور لوگوں کی صحت اور تندرستی پر اس کے ممکنہ نتائج کے بارے میں ناقابل یقین حد تک سیکھا ہے۔
ذیابیطس یوکے اس تحقیق کے لیے مالی اعانت فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے جو ٹائپ ون ذیابیطس کے مریضوں کے لیے نئے علاج اور بالآخر اس کے مکمل خاتمے کا باعث بنے گی، جبکہ انسولین اس حالت کے لیے ایک تھراپی کے طور پر ماضی کی بات ہے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔