مجھے ’وکھری‘ کی ریلیز سے ڈر لگ رہا ہے: فریال محمود

سال 2024 میں ریلیز ہونے والی پہلی پاکستانی فلم کا نام ’وکھری‘ ہے اور یہ مقتول ماڈل قندیل بلوچ کی زندگی سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے۔

سال 2024 میں جو پہلی پاکستانی فلم ریلیز ہو گی اس کا نام ’وکھری‘ ہے اور یہ مقتول ماڈل قندیل بلوچ کی زندگی سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے۔

اگرچہ یہ فلم قندیل بلوچ کی زندگی پر مبنی نہیں لیکن اس کا مرکزی خیال ان کی زندگی ہی سے لیا گیا ہے۔

وکھری میں مرکزی کردار اداکارہ فریال محمود ادا کر رہی ہیں، جو طویل عرصے سے پاکستانی ڈراموں میں کام کرتی آئی ہیں۔

فریال محمود کا انٹرویو یوں بھی ضروری تھا کہ رواں برس 22 دسمبر کو ان کی فلم ’چکڑ‘ بھی سینیما میں پیش کی گئی تھی جس میں وہ مختصر مگر پر اثر کردار میں تھیں۔

اس کے علاوہ 26 جنوری 2024 کو ریلیز ہونے والی فلم ’نایاب‘ میں بھی ان کا شادی نمبر پر ایک خصوصی رقص ہے۔

ایک ماہ میں تین فلمیں لگ رہی ہوں تو انٹرویو تو بنتا ہے نا۔

اسی لیے فریال کو قائل کر کے ہم ان کے گھر پہنچے، قائل اس لیے کرنا پڑا کہ ان کے پاؤں پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور ان کے ایک پیر کی سرجری ہوئی تھی، لیکن پھر بھی انہوں نے ہمیں وقت دیا۔

اس سوال پر کہ فلم کی ریلیز پر خوشی زیادہ ہے یا کہیں ڈر بھی محسوس ہورہا ہے؟ فریال نے کہا: ’مجھے ڈر لگ رہا ہے، کیونکہ ابھی تک پاکستان میں ہیروز کے بغیر فلم بکتی نہیں ہے اور ایک عورت پر مبنی کہانی کا بننا اور چلنا، یہ غیر معمولی ہے، اس لیے ڈر لگ رہا ہے، اصل میں باکس آفس کا دباؤ ہے۔‘

فریال محمود نے مزید بتایا کہ وہ نیویارک میں جب کام کرتی تھیں تو ان کے کچھ ساتھی ڈریگ شو میں یہ کردار کیا کرتے تھے۔ اس لحاظ سے وہ خوش قسمت رہی ہیں کہ وہ ان کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے کے انداز سے واقف تھیںم اسے لیے آسان تو نہیں تھا لیکن یہ انداز انوکھا بھی نہیں تھا۔

قندیل بلوچ کی زندگی سے متاثر ہو کر بنائی جانے والی اس فلم کے بارے میں فریال نے کہا: ’جب بھی ایک عورت اپنے لیے یا کسی اور کے لیے آواز اٹھاتی ہے تو اسے نکتہ چینی کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔

’قندیل بلوچ اکیلی تھیں، ان کے ساتھ کوئی تھا بھی نہیں، جو انہیں سمجھاتا یا بتاتا، تو ان کی کہانی سنانا بھی کہیں ضروری ہی ہوتا ہے کہ لوگ ان کے حالات کو بھی تو سمجھیں۔‘

فریال کے مطابق جب انہوں نے قندیل کی زندگی پر کچھ تحقیق شروع کی، ان کے کچھ انٹرویوز دیکھے تو انہیں اندازہ ہوا کہ بطور معاشرہ ہم سب نے قندیل بلوچ کو ناکام کیا۔

فریال کہتی ہیں کہ ’ہم روزانہ خواتین کو ایک طرح سے ناکام کر دیتے ہیں صرف اس لیے کہ ہمیں ان کی بات پسند نہیں آتی، ہم یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ہمارا اختلاف رائے ہے، لیکن انہیں برا کہا جاتا ہے اور پھر انہیں مار بھی دیا جاتا ہے، اس لیے یہ کہانی عوام تک پہچانا ضروری تھا اور یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔‘

فریال محمود نے کہا کہ انہیں اب بھی امید ہے کہ ’لوگ اس پیغام کو سمجھ پائیں گے جو اس فلم کے ذریعے دینے کی کوشش کی گئی ہے، ڈر تو ہے مگر امید زیادہ ہے۔‘

اس فلم میں فریال محمود کے دو طرح کے کردار ہیں۔ ایک نور اور ایک وکھری، وہ کہتی ہیں کہ ذاتی طور پر وہ وکھری سے زیادہ قریب ہیں کیونکہ ’وکھری‘ اپنی بات سنانا جانتی ہے، اس کی بات لوگ سنتے ہیں، جبکہ نور کا کردار بھی وہی بات کرتا ہے لیکن اسے بات کرنا آتا نہیں ہے۔

اس بارے میں مزید بات کرتے ہوئے فریال محمود کا کہنا تھا کہ ’وکھری جو بات کرتی ہے، وہ اس لیے زیادہ اہم ہوئی کہ لوگوں کو اس کی شناخت نہیں معلوم تھی اور اس لیے اس تجسس نے اسے بڑھاوا دیا۔‘

قندیل بلوچ پر تحقیق کے دوران فریال محمود نے اپنے کمرے کی دیوار پر ان کے جملے بھی لکھ رکھے تھے جنہیں فلم کی عکاسی کے دوران انہوں نے کہیں کہیں ان کے انداز میں استعمال بھی کیا۔

اس فلم میں شیث فریال کے بیٹے کا کردار کر رہے ہیں۔ شیث کو ڈراما ’میرے پاس تم ہو‘ سے شہرت ملی اور وہ اب خود بھی سپر سٹار ہیں۔

22 دسمبر کو فریال محمود کی فلم ’چکڑ‘ ریلیز ہوئی تھی، جس میں ان کا ایک مختصر مگر اہم کردار تھا۔ اب پانچ جنوری کو ’وکھری‘ آ رہی ہے جس میں وہ ٹائٹل کردار کر رہی ہیں، اس کے بعد 26 جنوری کو ان کی فلم ’نایاب‘ آرہی ہے جس میں وہ ایک ڈانس نمبر کر رہی ہیں۔

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فریال نے آج تک آئٹم نمبر نہیں کیا بلکہ کئی مرتبہ پیش کش ہونے کے باوجود منع کر دیا کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ان کا ’فن پاکستانی سینیما کو بدل سکتا ہے۔ وہ آئٹم نمبر سے اوپر کا معیار ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’بہت کم اداکارائیں ایسی ہیں جو اداکاری بھی اچھی کرتی ہیں اور انہیں ڈانس آتا ہو، اب ان پر آئٹم کا ٹھپہ لگانا ٹھیک نہیں، جو ویسے بھی بالی وڈ کا کلچر ہے، ہمارا نہیں۔

’ہمارے یہاں شادی میں ناچ گانا ہوتا ہے وہ میں نے کیا، میں چاہتی ہوں کہ بچیاں وہ سٹیپ کریں، میں چاہتی ہوں کہ مجھے مکمل اداکارہ سمجھا جائے، آئٹم گرل نہیں۔‘

موسیقی کی جانب فریال قدم نہیں اٹھانا چاہتیں کیونکہ ان کے گھر میں پہلے ہی سے اچھے گلوکار ہیں، اگرچہ انہوں نے گانا سیکھا ہوا ہے، ان کے بھائی اور والدہ گلوکاری کرتے ہیں، ان کے نانا استاد تھے جنہوں نے فریال کو سکھایا تھا، لیکن ان میں وہ اعتماد نہیں ہے کہ وہ گانا گا سکیں۔

فریال کہتی ہیں کہ ’گانا ایک مشکل کام ہے، اسے ہر ایک نہیں کر سکتا۔‘

اگرچہ انہوں نے ایک برانڈ کے لیے گانا گایا تھا لیکن پھر اس جانب جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔

آخر میں ڈراموں سے دور رہنے کی وجہ انہوں نے سکرپٹ پسند نہ آنا بتائی کہ وہ ہر کام نہیں کر سکتیں اور صرف چنیدہ کام ہی کرنا چاہتی ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم