مالدیپ نے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں توہین آمیز تبصرہ پوسٹ کرنے پر تین نائب وزرا کو معطل کر دیا۔
مالدیپ کے وزرا کے تبصروں نے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تنازعے کو جنم دیا ہے اور مالدیپ کے طاقت ور جنوبی ایشیائی ملک کی طرف سے سیاحتی بائیکاٹ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔
مودی کے مقامی سیاحت کو فروغ دینے کے لیے انڈین جزیرے لکشدیپ کے دورے کی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کرنے کے بعد تینوں وزرا نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنی پوسٹوں میں مودی کو ’جوکر‘، ’دہشت گرد‘ اور ’اسرائیل کی کٹھ پتلی‘ قرار دیا تھا۔
مالدیپ میں کچھ سوشل میڈیا صارفین نے مودی کی جانب سے ’اپنے جزیروں کی حیرت انگیز خوبصورتی‘ کی تعریف کرنے والی پوسٹوں کو سیاحت کے میدان میں مالدیپ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا۔
انڈین وزارت خارجہ نے منگل کو مالدیپ میں سفیر ابراہیم شاہیب کو ان سوشل میڈیا پوسٹوں پر طلب کیا۔
مالدیپ کی وزارت خارجہ نے فوری طور پر ان تبصروں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ رائے ذاتی ہے اور مالدیپ کی حکومت کے خیالات کی نمائندگی نہیں کرتی۔‘
انڈیا کا نام لیے بغیر وزیر خارجہ موسیٰ ضمیر نے ان تبصروں کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت ہمسایہ ممالک کے ساتھ مثبت بات چیت کے لیے پرعزم ہے۔
انہوں نے کہا کہ غیر ملکی رہنماؤں اور ہمارے قریبی ہمسایوں کے خلاف حالیہ ریمارکس ناقابل قبول ہیں اور حکومت کے سرکاری مؤقف کی عکاسی نہیں کرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم باہمی احترام اور افہام و تفہیم کی بنیاد پر اپنے تمام شراکت داروں بالخصوص ہمسایہ ممالک کے ساتھ مثبت اور تعمیری مکالمے کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہیں۔‘
مالدیپ کی نوجوانوں کو بااختیار بنانے، اطلاعات اور فنون لطیفہ کی وزار ملشا شریف، مریم شیونا اور عبداللہ محزوم مجید کو اتوار کو معطل کیا گیا۔
ان کی پوسٹس کو نسل پرستانہ قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔ شیونا نے انڈیا کا موازنہ گائے کے گوبر سے کیا تھا۔
یہ پوسٹ انڈین سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی جس پر لوگوں نے ہیش بائیکاٹ مالدیپ اور ایکسپلور انڈین آئی لینڈز کے ہیش ٹیگ کے ساتھ مالدین کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا
بولی وڈ اداکاروں اور کرکٹرز سمیت انڈیا کی معروف شخصیات نے مودی کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا اور مالدیپ کے سیاست دانوں کے بیان پر صدمے کا اظہار کیا۔
اداکار اکشے کمار نے ایکس پوسٹ میں کہا: ’مجھے مالدیپ کی اہم سرکاری شخصیات کی جانب سے انڈین شہریوں کے خلاف نفرت انگیز اور نسل پرستانہ تبصرے دیکھنے کو ملے۔ حیرت ہے کہ وہ یہ ایک ایسے ملک کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں جہاں سے سب سے زیادہ سیاح وہاں جاتے ہیں۔‘
’ہم اپنے ہمسایوں کے ساتھ اچھے ہیں لیکن ہم بلااشتعال نفرت کیوں برداشت کریں؟ میں کئی بار مالدیپ جا چکا ہوں اور ہمیشہ اس کی تعریف کی لیکن عزت سب بڑھ کا ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے جزائر کی سیر اور اپنی سیاحت کی حمایت کرنی ہو گی۔‘
کرکٹر سچن تندولکر نے کہا کہ ’انڈیا خوبصورت ساحلوں اور قدیم جزیروں سے مالا مال ہے۔
اپنے’ آتیتھی دیو بھاوا‘ (مہمان بھگوان کی مانند ہوتا ہے) کے فلسفے کے ساتھ ہمارے پاس سیر کے لیے بہت کچھ ہے۔ بہت ساری یادیں تخلیق ہونے کا انتظار کر رہی ہیں۔‘
ٹکٹ بکنگ پلیٹ فارم ایز مائی ٹرپ کے سی ای او نے کہا کہ ان کی کمپنی نے انڈیا کے ساتھ یک جہتی کے طور پر مالدیپ کے لیے تمام پروازوں کی بکنگ معطل کردی۔
انڈیا اور مالدیپ کے درمیان پہلے سے جاری کشیدگی کے ماحول میں نیا تنازع شروع ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل مالدیپ کے نو منتخب صدر محمد معیزو دہلی سے کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی فوج کے 75 دستے مالدیپ سے واپس بلا لے۔
اپنے چین نواز موقف کی وجہ سے مشہور معیزو گذشتہ سال بحر ہند میں مالدیپ کی ’انڈیا پہلے‘ پالیسی ختم کرنے کے عزم کے ساتھ اقتدار میں آئے جہاں بیجنگ اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ کر رہا ہے۔
یہ صورت حال صدر معیزو کے منگل سے 12 جنوری تک چین کے پانچ روزہ دورے کے موقع پر بھی سامنے آئی ہے جسے انڈیا کے لیے سفارتی جھٹکے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یہ دورہ مالدیپ کے سابقہ رہنماؤں کی روایت سے انحراف ہے جو عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے انڈیا کا دورہ کرتے تھے۔
نومبر میں عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر معیزو نے ترکی کا پہلا سرکاری دورہ کیا۔
انڈین اور چین کے درمیان ہمالیائی علاقے میں موجود تعطل کے ماحول میں مالدیپ کے صدر کے دورہ چین پر انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ یہ فیصلہ کرنا ان کا کام ہے کہ وہ کہاں جائیں گے اور ان کے بین الاقوامی تعلقات کیسے ہوں گے۔‘
جیسوال نے کہا کہ مالدیپ سے انڈین فوجیوں کے انخلا کے بارے میں کوئی اپ ڈیٹ نہیں۔
بحر ہند میں اہم سمندری ہمسایہ ملک مالدیپ انڈیا کے لیے سٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ یہ لکشدیپ کے منی کوئے جزیرے سے صرف 70 ناٹیکل میل اور انڈیا کے مغربی ساحل سے تین سو ناٹیکل میل دور ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔