مردان: اخبار فروشی کے کاروبار میں مندی کا رجحان

اخبار فروش بخت محمد سمجھتے ہیں کہ پہلےاخبار مہنگا بھی نہیں تھا، ڈیجیٹل میڈیا اور انٹرنیٹ بھی نہیں تھا جس کی وجہ سے اخبار کا کام بہت اچھا تھا اور بہت زیادہ سیل ہوتی تھی۔

مردان کے علاقے نیوز اڈہ کے اخبار فروش بخت محمد اپنے سٹال پر اخبارات کی فروخت میں کمی کا ذمہ دار ڈیجیٹل میڈیا اور انٹرنیٹ کو ٹھہراتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے 26 برس سے اخبار بیچتے ہیں۔ وہ پہلے ایک ایک اخبار کی 100 سے زیادہ کاپیاں ایجنسی سے لاتے اور فروخت کرتے تھے لیکن اب مشکل سے 28 سے 30 اخبارات بکتے ہیں۔

’پہلے روزنامہ آج کے 10 اور اس طرح مشرق کے 13 اور ایکسپریس کے پانچ اخبار اور روزنامہ جنگ ایک عدد لے آتاہوں اور یہ بھی مشکل سے بکتا ہے۔‘

اخبار فروش بخت محمد سمجھتے ہیں کہ پہلےاخبار مہنگا بھی نہیں تھا، ڈیجیٹل میڈیا اور انٹرنیٹ بھی نہیں تھا جس کی وجہ سے اخبار کا کام بہت اچھا تھا اور بہت زیادہ سیل ہوتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق اخبار نہ بکنے کی وجہ ڈیجیٹل دور ہے، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں نے اخبار پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ انٹرنیٹ پر وٹس ایپ اور فیس بک پرایک ایک سیکنڈ کی خبر آتی ہے جس سے لوگ فوری طور پر باخبر ہوتے ہیں۔ جو خبر اگلی صبح اخبار میں آتی ہے وہ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پر لوگ پہلے ہی باخبر ہوتے ہیں۔

ان کے مطابق: ’اخبار مہنگا بھی ہوگیا ہے پہلے اخبار 10 روپے اور نو روپے کا ہوتا تھا اب اخبار کی قیمت بڑھ گئی ہے 40 روپے اور 30 روپے تک ہو گئی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اخبارات کم بکنے کی وجہ سے اس کے ساتھ چھوٹا سا سٹال لگایا ہے جس میں 10، 10 روپے کی چھوٹی چھوٹی پڑیاں خشک میوہ جات اور مٹھائیوں کی بنا کر بیچتے ہیں اور دونوں کی مزدوری سے گھر کا گزارہ ہوتا ہے۔

محمد بخت نے بتایا کہ بہت سےاخبار بیچنے والوں نےمجبور ہو کر کام چھوڑ دیا ہے، پہلے مردان میں 60 اخبار بیچنے والے ہوا کرتے تھے اب مشکل سے 20 سے 25 رہ گئے ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت