44 سال ریپ کے الزام میں غلط قید شخص کے لیے ڈھائی کروڑ ڈالر ہرجانہ

امریکی میں ایک سیاہ فام شخص کو سفید فام خاتون کو ریپ کرنے کے جرم میں اپنی زندگی کے 44 سال غلط طور پر قید میں گزارنے پر ڈھائی کروڑ ڈالر کا تاریخی معاوضہ ملا ہے۔

رونی کو 21 سال کی عمر میں عمر قید کی دو سزائیں سنائی گئی تھیں (دی شارلیٹ آبزرور/اے پی)

امریکی ریاست شمالی کیرولائنا میں ایک سیاہ فام شخص کو سفید فام خاتون کو ریپ کرنے کے جرم میں اپنی زندگی کے 44 سال غلط طور پر قید میں گزارنے کے بعد ڈھائی کروڑ ڈالر کا تاریخی معاوضہ ملا ہے۔

 68سالہ رونی والیس لانگ کو جب 1976 میں سفید فام جیوری نے ریپ اور نقب زنی کا مجرم قرار دیا تو اس وقت وہ کونکورڈ میں رہائش پذیر تھے۔

21 سال کی عمر میں لانگ کو عمر قید کی دو سزائیں سنائی گئیں۔ ان کے وکلا نے دعویٰ کیا کہ جیوری کا انتخاب قانون نافذ کرنے والے مقامی رہنماؤں نے اپنی مرضی سے کیا۔

تاہم اگست 2020 میں ایک وفاقی اپیل کورٹ نے لانگ کو ان کی جانب سے انصاف حاصل کرنے کی کوشش میں مقدمے کی نئے سرے سماعت کا حکم دیا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد ان کی سزا ختم کر دی گئی۔

اسی سال لانگ کو جیل سے رہا کر دیا گیا اور گورنر روئے کوپر نے ان کی بے گناہی پر انہیں مکمل معافی دے دی۔ اس کے بعد لانگ نے 2021 میں ریاست شمالی کیرولائنا کی حکومت اور کونکورڈ شہر کی انتظامیہ کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ دائر کر دیا۔

ڈھائی کروڑ ڈالر کے معاوضے میں سے مقامی حکومت دو کروڑ 20 لاکھ ڈالر ادا کرے گی۔ اس رقم کے ساتھ لانگ کی قید میں کونکورڈ شہر کی انتظامیہ کے کردار پر اس کی جانب سے دیا گیا تحریری معافی نامہ بھی ہے۔

اس معافی نامے میں کہا گیا کہ ’ہمیں ماضی کی غلطیوں پر سخت افسوس ہے جن کی وجہ سے لانگ، ان کے خاندان، دوستوں اور ہماری برادری کو بہت زیادہ تکلیف پہنچی۔‘

’اگرچہ لانگ اور ان کے اہل خانہ کی تکلیف اور جو کچھ ان سے چھین لیا گیا اس کا مکمل ازالہ نہیں ہو سکتا، تاہم اس معاہدے کے ذریعے ہم ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے اور ان کی ذمہ داری لینے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔‘

ڈیوک یونیورسٹی کے لا سکول میں غلط سزا پانے والوں کے قائم شعبے نے لانگ کو مقدمے میں اپیل کے دوران کئی سال تک مدد فراہم کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لانگ کے وکلا کا کہنا تھا کہ جائے وقوعہ سے جمع کیے گئے 40 سے زیادہ فنگر پرنٹس کبھی شیئر نہیں کیے گئے اور نہ ہی وہ لانگ کے فنگر پرنٹس سے میل کھاتے ہیں۔

سپرم کے نمونے بھی کبھی دفاع کے سامنے نہیں لائے گئے جو بعد میں غائب ہوگئے۔

ریاستی کمیشن نے ابتدائی طور پر لانگ کو ساڑھے سات لاکھ ڈالر دیے جو قانون کے مطابق غلط سزا کے متاثرین کے لیے ریاست کا سب سے بڑا معاوضہ ہوتا ہے۔

لیکن اس کے بعد انہوں نے ریلے کی وفاقی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا اور کونکورڈ پولیس کے افسروں پر ’غیر معمولی بدعملی‘ کا الزام عائد کیا جس کے تحت انہیں ان شہری حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غلط سزا سنائی گئی قید میں رکھا گیا۔

مقدمے میں ان کے وکلا نے اپنے بیان میں کہا کہ سٹیٹ بیورو آف انویسٹی گیشن (ایس بی آئی) نے یہ بھی تسلیم کیا کہ ’ایس بی آئی نے لانگ اور ان کی قانونی ٹیم سے وہ شواہد چھپانے میں کردار ادا کیا جنہوں نے ان کی بے گناہی ثابت کی۔‘

لانگ کے وکلا نے کا کہنا تھا کہ اگرچہ غلط سزا کی صورت میں ان کے مؤکل کو جو رقم معاوضے کے طور پر ملی ہے جو پورے ملک میں اپنی نوعیت کے سب سے بڑی ادائیگیوں میں سے ایک ہے لیکن شہری کی انتظامیہ کا بیان ان کے مؤکل کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

مقدمے میں لانگ کے وکلا میں ایک وکیل کرس اولسن کا کہنا تھا کہ ’اس سے پتہ چلتا ہے کہ لانگ کے مقدمے میں کتنی بڑی نااںصافی ہوئی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’لانگ کی تکلیف کی ازالے میں معافی نامہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔‘

اس رپورٹ کی تیاری میں ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) سے مدد لی گئی ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ