امریکہ کی پاکستان، عراق اور شام پر ایرانی حملوں کی مذمت

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا: ’ہم نے دیکھا ہے کہ ایران نے گذشتہ چند دنوں میں اپنے تین ہمسایہ ممالک کی خود مختاری اور سرحدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔‘

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر17 جنوری 2024 کو واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران (سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ یوٹیوب سکرین گریب)

امریکہ نے بدھ کو پاکستان، عراق اور شام میں حالیہ ایرانی حملوں کی مذمت کی ہے، جن کے بارے میں تہران نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ ’ایران مخالف دہشت گرد گروہوں‘ کے خلاف کیے گئے تھے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بدھ کو واشنگٹن میں پریس بریفنگ میں  کہا: ’ہم ان (پاکستان، عراق اور شام پر ایرانی) حملوں کی مذمت کرتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ایران نے گذشتہ چند دنوں میں اپنے تین ہمسایہ ممالک کی خود مختاری اور سرحدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔‘

میتھیو ملر نے مزید کہا: ’میرے خیال میں یہ تھوڑا عجیب ہے کہ ایک طرف ایران خود خطے میں دہشت گردی اور عدم استحکام کی سب سے زیادہ معاونت کرتا ہے اور دوسری طرف یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ اقدامات کرنے کی ضرورت تھی۔‘

عراق اور شام میں حملوں کے بعد منگل کی رات ایران کی جانب سے پاکستانی صوبہ بلوچستان کے ضلع پنجگور میں ایک حملہ کیا گیا تھا، جس کے حوالے سے ایران کے سرکاری میڈیا نے خبر دی تھی کہ پاکستان کے اندر بلوچ عسکریت پسند گروپ جیش العدل کے دو ٹھکانوں کو ہدف بنایا گیا۔

یہ گروپ 2012 میں تشکیل دیا گیا تھا اور اسے ایران نے دہشت گرد گروپ کے طور پر بلیک لسٹ کر رکھا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس گروپ نے پاکستانی سرحد سے متصل ایرانی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملے بڑھا دیے تھے۔

امریکہ کی جانب سے کالعدم قرار دی جانے والی جیش العدل نامی تنظیم نے حملے کے بعد ایک بیان میں کہا کہ ایران کے پاسدان انقلاب کی طرف سے تنظیم کے ’مجاہدین‘ کے کئی گھروں کو چھ ڈرونز سے نشانہ بنایا گیا، جہاں بچے اور خواتین رہائش پذیر تھیں۔

مزید کہا گیا کہ ’یہ ایک مجرمانہ حملہ تھا جس میں دو چھوٹے بچے شہید جب کہ دو خواتین اور نوجوان لڑکی شدید زخمی ہوئی۔‘

پاکستان نے ان حملوں کے بعد بدھ کو ایران سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا اور تہران کے سفیر کو اس فضائی حملے کے بعد اسلام آباد واپس آنے سے روک دیا۔ پاکستان نے دعویٰ کیا تھا کہ اس حملے میں دو بچے جان سے گئے تھے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے سرحد کے قریب ہونے والے اس حملے کو ’بلا اشتعال اور پاکستان کی خودمختاری‘ کی خلاف ورزی قرار دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب ایران کے پاکستانی حدود میں حملوں کے ایک روز بعد ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے پاکستان کے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔

اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے جلیل عباس جیلانی، جو اس وقت یوگنڈا کے شہر کمپالا میں غیر وابستہ تحریک کے وزارتی اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت کر رہے ہیں، نے بات چیت کی۔‘

بیان کے مطابق نگران وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ ’16 جنوری 2024 کو ایران کی جانب سے پاکستانی حدود میں حملہ نہ صرف پاکستان کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ یہ بین الاقوامی قوانین اور پاکستان اور ایران کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی روح کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔‘

پاکستان کی جانب سے حملے کی مذمت کرتے ہوئے نگران وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اس واقعے سے پاکستان اور ایران کے دوطرفہ تعلقات کو شدید نقصان پہنچا ہے اور پاکستان اس اشتعال انگیز کارروائی کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دہشت گردی خطے کے لیے ایک مشترکہ خطرہ ہے اور اس لعنت سے نمٹنے کے لیے مربوط اور مربوط کوششوں کی ضرورت ہے، نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یکطرفہ اقدامات سے علاقائی امن و استحکام کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ان کے بقول: ’خطے کے کسی بھی ملک کو اس خطرناک راستے پر نہیں چلنا چاہیے۔‘

اس سے قبل ایران نے عراق کے نیم خود مختار خطے کردستان میں بھی ’اسرائیلی جاسوسوں اور دہشت گردوں‘ کے اہداف کو نشانہ بنایا تھا جبکہ شام میں بھی داعش کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔

یہ حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب غزہ پر اسرائیل کی جارحیت کے باعث اس تنازع کے مشرق وسطیٰ میں پھیلنے کے خدشات سر اٹھا رہے ہیں اور یمن میں سرگرم حوثی ملیشیا بحیرہ احمر میں جہازوں پر حملے کر رہی ہے، جن کے خلاف امریکہ اور برطانیہ نے کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا