حکومت پاکستان نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے اختیارات اچانک ختم کرتے ہوئے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ایک تحقیقاتی ادارے کی موجودگی میں سائبر کرائم ونگ کو علیحدہ ادارہ بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا اس کی وجہ سوشل میڈیا کا بڑھتا استعمال اور آن لائن جرائم ہیں؟
دوسرا جتنی جلدی اور جس طریقے سے یہ نیا ادارہ قائم کیا گیا، اس نے بھی کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کے سوال پر جواب میں بتایا کہ ’ایف آئی اے کا دائرہ کار سوشل میڈیا پر ہونے والے جرائم سے نمٹنے کے لیے وسیع نہیں تھا اس لیے نیشنل کرائم ایجنسی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ ’سائبر کرائم ایجنسی بنیادی طور ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی ہے۔ اس حوالے سے صحافی تنظیموں سے بھی تجاویز طلب کی تھیں۔ اگر کوئی شخص اغوا ہوتا ہے یا اس پر حملہ ہوتا ہے تو اس کے پاس پولیس کا فورم موجود ہے۔
’اگر سوشل میڈیا پر خواتین کو ہراساں کیا جائے گا، اگر چائلڈ پورنوگرافی کی تشہیر کی جائے گی یا اقلیتوں کو سوشل میڈیا پر نشانہ بنایا جائے اور لوگوں کو سوشل میڈیا پر اکسایا جائے تو اس کا حل پولیس کے پاس موجود نہیں ہے اور نہ ہی ایف آئی اے سوشل میڈیا پر ہونے والے جرائم کے سدباب کے لیے کافی ہے۔
’اس لیے ڈیجیٹیل دور میں ڈیجیٹل حقوق کی حفاظت کے لیے سائبر کرائم ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ابھی اس کے مزید قوانین و ضوابط بنیں گے اور تمام متعلقہ شعبوں سے بھی تجاویز لیں گے۔‘
حکومتی فیصلے کے ناقدین کا اصرار ہے کہ ادارہ قائم ہونے کے بعد اس پر مشاورت مناسب طریقہ کار نہیں۔ ناقدین کے مطابق ٹیکس دینے والوں پر ایک نئے ادارے کا بوجھ ڈالنا بھی خود قومی معیشت کے ساتھ انصاف نہیں۔ وہ بھی ایک ایسے وقت جب اسے بچانے اور قومی اخراجات کم کرنے کی تدابیر کی جا رہی ہوں۔
’ہمارے کئی سوالات ہیں‘
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی بانی اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہمارا ایک اعتراض یہ ہے کہ جب سائبر کرائم ایجنسی بنانے کا ارادہ کیا گیا تو حکومت کو متعلقہ افراد سے پہلے ہی بات کر لینی چاہیے تھی۔ وہ تمام لوگ جو ڈیجیٹل رائٹس پر 2016 سے کام کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب تو ایجنسی کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہو چکا ہے لیکن سائبر کرائم ایجنسی کے لیے شفافیت ایک اہم جزو ہوگا۔ متاثرہ شخص کو پتہ ہونا چاہیے کہ سائبر کرائم ایجنسی تک رسائی کیسے حاصل کرنی ہے۔
’پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پیکا) قانون میں ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ پارلیمانی کمیٹی کو جواب دہ تھا لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ سائبر کرائم ونگ نے کبھی پارلیمانی کمیٹی کو جواب جمع نہیں کروائے۔‘
نگہت داد نے کہا کہ ’اس لیے جب نیشنل کرائم ایجنسی کے ٹی او آرز (طریقہ کار) بنائے جائیں تو ہمارا ساتھ بیٹھنا ضروری ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ نیشنل کرائم ایجنسی میں تعیناتیاں کن افراد کی ہوں گی۔
’جو ایک سال کا وقت رکھا گیا ہے کہ جب تک ایجنسی مکمل فعال نہیں ہو جاتی تب تک ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ پہلے سے موجود مقدمات کو دیکھے گا، ایسی صورت میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ دیانت داری سے ذمہ داری نبھائے گا؟ یہ تمام سوالات ہیں جن پر بات چیت ضروری ہے۔‘
نئی ایجنسی کام کیسے کرے گی؟
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق: ’ایف آئی اے اب سائبر جرائم کی تحقیقات نہیں کرے گا بلکہ اس مقصد کے لیے بنایا گیا مکمل نیا ادارہ سائبر کرائم ایجنسی تحقیقات کرے گی، جو وزارت داخلہ کے ماتحت ہوگی۔
اس کی وزارت داخلہ کے ماتحت الگ سے اتھارٹی ہوگی جبکہ نیشنل سائبر کرائمز تحقیقاتی ایجنسی کا سربراہ ایک ڈائریکٹر جنرل ہوگا جو کم از کم گریڈ 21 کا ہوگا اور جس کی عمر 63 سال سے زائد نہیں ہوگی۔ ایجنسی کے سربراہ کو صوبے کے آئی جی کے برابر اختیارات حاصل ہوں گے، تاہم ابھی ڈی جی کی تعیناتی عمل میں نہیں آئی ہے۔
مزید کہا گیا کہ ’ڈائریکٹر جنرل کے عہدے کی مدت دو سال ہوگی۔ ایجنسی میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل، ڈائریکٹرز، ایڈیشنل ڈائریکٹرز، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز اور دیگر ضروری عہدے ہوں گے۔ تفتیشی افسر اور اس کے ماتحت دیگر افسران پولیس آرڈر 2002 کے تحت ادارے میں خدمات انجام دیں گے۔‘
دستیاب معلومات کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائمز کی تمام انکوائریاں، تحقیقات اور اثاثہ جات نئی قائم ہونے والے ایجنسی کے سپرد کر دیے جائیں گے اور آئندہ سے نئی ایجنسی ان تمام مقدمات کو دیکھے گی۔
وزارت داخلہ کے امور پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی ذوالقرنین حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ممکنہ طور پر ڈی جی کے عہدے پر دو سٹار فوجی افسر تعینات ہوں گے۔‘
’ایجنسی کے دائرہ کار کو وسیع کیا جائے گا‘
ذوالقرنین حیدر نے بتایا کہ ’سمجھا یہ جا رہا تھا کہ ایف آئی اے کے تحت سائبر کرائم کا ونگ موثر کام نہیں کر رہا، اس کے قوانین اور دائرہ کار میں بھی تبدیلی کی ضرورت محسوس کی گئی۔ ایف آئی اے کے اندر سائبر کرائم ونگ میں عملے کی بھرتیوں کا بھی مسئلہ تھا، اس وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ الگ ایجنسی قائم کر کے اس کے اپنے قوانین و ضوابط اور دائرہ کار کا تعین کیا جائے۔‘
انہوں نے بتایا کہ پہلے اسے اٹھارٹی کا نام دیا جا رہا تھا لیکن پھر مکمل ایجنسی کا دائرہ کار بنا دیا گیا اور اب پیکا ایکٹ میں بھی ترامیم کی جائیں گی تاکہ نئی سائبر کرائم ایجنسی وسیع دائرہ کار کے تحت سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال اور منسلک جرائم پر قابو پا سکے۔‘
خواجہ خالد فاروق نے جو سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس اور نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کے سابق سربراہ ہیں، ایک مضمون میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ حکومت نے اس ادارے کے قیام کی جلدی میں ایک عام شخص کی بنیادی پرائیویسی (رازداری) کو نظر انداز کیا ہے۔ ’نئی ایجنسی کے نگرانی کے طریقہ کار اور حد سے زیادہ دسترس کو روکنے کے اقدامات کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں۔ اس بات کا خطرہ ہے کہ سائبر سکیورٹی کے حصول میں سخت چیک اور بیلنس کے بغیر رازداری کے انفرادی حقوق سے سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔‘
کسی بھی نئی ایجنسی کے قیام کے لیے فنڈنگ، وسائل اور ترقیاتی اور آپریشنل تیاری کے لیے اہم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت نے حسب روایت نئے ادارے پر اٹھنے والے اضافی اخراجات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا ہے۔
اسی طرح این سی سی آئی اے کو آپریشنل کرنے کے لیے نئے بنیادی ڈھانچے کے قیام، خصوصی اہلکاروں کی خدمات حاصل کرنے اور نئے پروٹوکول تیار کرنے کے لیے اہم مالی اخراجات شامل ہوں گے۔
خواجہ خالد فاروق کے خیال میں سائبر کرائم میں ایف آئی اے کے موجودہ بنیادی ڈھانچے اور مہارت کو دیکھتے ہوئے اس کی صلاحیتوں کو بڑھانا نئے ادارے کے ساتھ نئے سرے سے کام شروع کرنے کے مقابلے میں زیادہ کم خرچ اور موثر ہوتا۔
ان کا اصرار تھا کہ ’پاکستان معاشی بحران کے دوران نئے تجربات کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔‘
بعض ماہرین کے خیال میں عوام کو آگہی دینے کے لیے کہ وہ کس طرح آن لائن خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں، کا ہدف کسی نئی ایجنسی کی ضرورت کے بغیر مؤثر طریقے سے باآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔