لاہور میں 20 فیصد شکایات سائبر ہراسانی سے متعلق ہوتی ہیں: ایف آئی اے

وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سائبر کرائم ونگ کی ایڈیشنل ڈائریکٹر عائشہ آغا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’صرف لاہور سے 20 سے 25 کے قریب یومیہ شکایات سائبر ہراسمنٹ کی ہوتی ہیں۔‘

سائبر جرائم کے واقعات میں ملزم کو سزا ہونے کا انحصار اس کی شکایت کرنے والے پر ہے (پکسا بے)

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کا کہنا ہے کہ اس کے سائبر کرائم ونگ کو یومیہ موصول ہونے والی شکایات میں سے 20 فیصد سائبر ہراسمنٹ سے متعلق ہوتی ہیں۔

ادارے کے سائبر کرائم ونگ کی لاہور میں ایڈیشنل ڈائریکٹر عائشہ آغا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’صرف لاہور سے ہمیں دن کی 70 سے 80 کے قریب مختلف سائبر کرائمز کی شکایات موصول ہوتی ہیں جن میں سب سے زیادہ تر شکایات جو 20 سے 25 کے قریب ہوتی ہیں وہ سائبر ہراسمنٹ کی ہوتی ہیں۔‘

جنسی ہراسانی اور پھر اسے سوسل میڈیا پر جاری کرنے کا سائبر ہراسمنٹ کا ایک واقعہ حال ہی میں ضلع لودھراں میں پیش آیا جہاں ایک سرکاری سکول کے پرنسپل نے سکول کی ہی ایک استانی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اور ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کر دی۔

لودھراں پولیس کے ترجمان خان بہادر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس واقعے کی ایف آئی آر متاثرہ خاتون کے والد کی مدعیت میں درج کر لی گئی ہے جبکہ سکول کے پرنسپل کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پرنسپل پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ پہلے بھی سکول کی خواتین اساتذہ کے ساتھ یہی عمل کر چکے ہیں۔ البتہ اس حوالے سے مزید تحقیقات ابھی جاری ہیں۔

واقعے کی ایف آئی آر میں مدعی نے بیان دیا ہے کہ ’ان کی بیٹی جن کی عمر 22، 23 سال ہے، 2018 سے ایک سرکاری سکول میں پڑھا رہی ہیں اور پرنسپل غلام مصطفیٰ معصوم بچیوں اور سکول کی استانیوں کی عزت سے کھیل چکے ہیں۔‘

ایف آئی آر میں انہوں نے کہا کہ ان کی بیٹی (متاثرہ خاتون کا نام نہیں لکھا جا رہا) کا بھی پرنسپل نے جنسی استحصال کیا اوراس کی ویڈیو بھی بنائی۔

مدعی نے مذید لکھا کہ ان کی بیٹی اپنی عزت بچانے کے لیے ابتدا میں خاموش رہی اور مجھے کچھ نہیں بتایا، لیکن اب ملزم نے ویڈیو وائرل کر دی جس کے بیٹی نے انہیں سب کچھ بتا دیا۔

ایف آئی آر میں یہ بھی درج ہے کہ جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے ملزم کے ساتھ دو نامعلوم افراد بھی تھے جن میں سے ایک نے ان کی ویڈیو بنائی جبکہ دوسرا دروازے پر پہرا دیتا رہا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مدعی نے یہ بھی الزام لگایا کہ ملزم نے دیگر خواتین کو بھی جنسی استحصال کا نشانہ بنایا ہے لیکن وہ بھی اپنی عزت کی خاطر خاموش رہیں۔

اس حوالے سے ایف آئی اے کے مرکزی سائبر کرائم ونگ سے کئی بار رابطہ کرنے اور یاد دہانی کے باجود پورے ملک کے سائبر ہراسمنٹ کے اعداد و شمار مہیا نہیں کیے جا سکے۔

جب انڈپینڈنٹ ارود نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ لاہور سے رابطہ کیا تو وہاں کی ایڈیشنل ڈائریکٹر عائشہ آغا نے بتایا کہ ’ایسے واقعات میں ملزم کو سزا ہونے کا انحصار اس کی شکایت کرنے والے پر ہے۔ ایسے زیادہ تر واقعات میں شکایت کنندہ خاتون ہوتی ہے اور ہم نے زیادہ تر دیکھا ہے کہ متاثرہ خواتین معاشرے اور والدین کے دباؤ میں آکر پیچھے ہٹ جاتی ہیں اور مقدمے کی پیروی نہیں کرتیں۔‘

عائشہ آغا کے مطابق: ’ایسے کیسسز میں جب عدالت میں بیانات ریکارڈ ہو رہے ہوتے ہیں اس دوران شکایت کنندہ سے جو سوالات ہوتے ہیں وہ ان کے لیے مذید شرمندگی کا سبب بنتے ہیں۔ ایسے موقع پر عدالت کی کارروائی کو شکایت کنندہ اور ان کے والدین برداشت نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے زیادہ تر مقدمات میں مدعی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔‘

عائشہ آغا کے خیال میں ’سائبر ہراسمنٹ کے مقدمات کی سماعت کھلی عدالتوں (اوپن کورٹس) میں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے خواتین وہاں پریشان ہو جاتی ہیں۔ ایسے واقعات کی سماعت کے لیے  خواتین کی الگ عدالتیں ہونی چاہیں جہاں وہ بغیر کسی پریشانی، شرمندگی یا دباؤ کے اپنے کیس کی پیروی کر سکیں۔‘

پاکستان میں ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی سینیئر ہیلپ لائن ایسوسی ایٹ انمول سجاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم چوں کہ خود اپنے ادارے کے سائبر کرائم ہراسمنٹ کے شکایت سیل میں کام کرتے ہیں تو ہمیں روزانہ 15 سے 20 کالیں اسی حوالے سے آتی ہیں۔‘

انمول نے بتایا کہ ’ان کالز میں کی جانے والی شکایات میں زیادہ تر مرضی کے بغیر متاثرہ خاتون کی تصاویر یا ویڈیوز کا غلط استعمال کیا جا رہا ہوتا ہے۔ انہیں بلیک میل کیا جا رہا ہوتا ہے یا ان کی میمز بن رہی ہوتی ہیں جو وائرل ہو رہی ہوتی ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر نازیبا مواد وائرل کیسے ہوتا ہے؟

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) کی بانی نگہت داد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ایسا مواد زیادہ تر ایسے میمز والے پیجز پر یا ٹک ٹاک اکاؤنٹس کے ذریعے شیئر کیا جاتا ہے جو کہ پہلے سے ہی سنسنی خیزمواد شیئر کر رہے ہوتے ہیں اور وہ کسی طریقے سے کمیونٹی گائیڈ لائن سے بچ جاتے ہیں۔ اور اس مواد کو دیکھنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں جو اس قسم کے مواد میں تفریح ڈھونڈتے ہیں۔‘

نازیبا مواد کو وائرل ہونے سے کیسے روکا جائے؟

اس حوالے سے انمول سجاد کا کہنا تھا: ’وائرل ہونے سے صرف اسی طرح روکا جاسکتا ہے کہ ہم اس مواد اور اس سوشل میڈیا اکاؤنٹ چاہے وہ انسٹا گرام پر ہے، فیس بک یا دیگر پلیٹ فارمز، انہیں فوری طور پر رپورٹ کریں۔‘

انہوں نے مذید بتایا کہ ’ہمیں ہر روز سائبر ہراسمنٹ کی کالز آ رہی ہوتی ہیں اور ہم ہر روز ان واقعات کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ واقعات پھر ایف آئی اے کے پاس چلے جاتے ہیں اور ان میں جو سیکشن 20 اور 21 کے ہوتے ہیں جن میں بلیک میلنگ ہو رہی ہوتی ہے کہ بغیر مرضی کے نازیبا تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈٰیا پر وائرل ہو رہی ہوتی ہیں، ان کیسسز کو ایف آئی اے میں بہت جلد دیکھا جاتا ہے اور ہ شکایت کنندہ کو خود ایف آئی اے کے دفتر لے کر جاتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ شکایت کنندہ کے ساتھ ان کے وکیل جاتے ہیں اور ان کے مقدمے کی پیروی کرتے ہیں لیکن پھر بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ شکایت کنندہ عدالت تک نہیں جانا چاہتے۔

’ان شکایت کنندہ کو بس اس بات کی زیادہ فکر ہوتی ہے کہ ان کے حوالے سے جو بھی غیر مناسب مواد سوشل میڈیا پر جہاں جہاں ہے وہ وہاں سے ڈلیٹ ہو جائے۔‘

باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کے غلط استعمال پر قابو پانے کے لیے لوگوں کی تعلیم اور آگہی کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی