ایران کے حملے پر پاکستان کا سنگین نتائج کا انتباہ، چین کا فریقین سے تحمل کا مطالبہ

پاکستان نے ایران کے حملے کو ملک کی فضائی حدود کی ’بلااشتعال خلاف ورزی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ’ناقابل قبول‘ ہے اور اس کے ’سنگین نتائج‘ ہو سکتے ہیں

پاکستان کے دفتر خارجہ نے منگل کو رات گئے تصدیق کی کہ ایران نے اس کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے، جس کے نتیجے میں دو بچے ہلاک اور تین زخمی ہوئے ہیں۔

اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے ایران کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی ’بلااشتعال خلاف ورزی کی شدید مذمت‘ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی ’ناقابل قبول‘ ہے اور اس کے ’سنگین نتائج‘ ہو سکتے ہیں۔

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں بتایا گیا کہ ایرانی حملے میں دو بچوں کی اموات اور تین بچیاں زخمی ہوئیں۔

اس سے قبل ایران کے سرکاری میڈیا نے منگل کو رپورٹ کیا تھا کہ ایران نے پاکستان کے اندر بلوچ عسکریت پسند گروپ جیش العدل کے دو ٹھکانوں کو میزائلوں سے ہدف بنایا۔

روئٹرز نے ایران کے سرکاری میڈیا کے حوالے سے بتایا کہ دونوں ٹھکانے ڈرونز اور میزائل حملے میں تباہ ہو گئے۔ روئٹرز کے مطابق اس گروپ نے پاکستانی سرحد سے متصل ایرانی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملے بڑھا دیے تھے۔

چین کا ردعمل

چین نے بدھ کو  پاکستان اور ایران پر زور دیا کہ وہ ’تحمل‘ کا مظاہرہ کریں۔ چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ  ’ہم دونوں فریقوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے، کشیدگی میں اضافے کا باعث بننے والے اقدامات سے گریز کرنے اور امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے مل کر کام کرنے کا کہتے ہیں۔‘

ترجمان نے کہا کہ ’ہم (چین) ایران اور پاکستان دونوں کو قریبی پڑوسی اور بڑے اسلامی ممالک سمجھتے ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ایران اور پاکستان دونوں بیجنگ کے قریبی شراکت دار اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ہیں۔

جیش العدل کا ردعمل

جیش العدل تنظیم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران کے پاسدان انقلاب کی طرف سے تنظیم کے ’مجاہدین‘ کے کئی گھروں کو چھ ڈرونز سے نشانہ بنایا گیا جہاں بچے اور خواتین رہائش پذیر تھیں۔

تنظیم کی طرف سے کہا گیا کہ ان حملوں میں دو گھر تباہ ہو گئے جہاں مقیم اہلِ خانہ بشمول بچے جان سے جانے والوں اور زخمیوں میں شامل ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ’یہ ایک مجرمانہ حملہ تھا جس میں دو چھوٹے بچے شہید جب کہ دو خواتین اور نوجوان لڑکی شدید زخمی ہوئی۔‘

جیش العدل سنی مسلح گروہ ہے جس نے اپنی سرگرمیاں ایران کے شہر سیستان سے شروع کی تھیں۔ یہ گروپ علاقے کے ایک اور مسلح گروپ جند اللہ کے سربراہ عبدالمالک ریگی کی گرفتاری اور پھانسی کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔

اس گروپ پر 2005 میں ایران کے اس وقت کے صدر محمود احمدی نژاد پر مسلح حملے سمیت متعدد دھماکوں اور حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔

حملے بلوچستان کے کس علاقے میں ہوئے

حملے کا مقام ضلع پنجگور کا سرحدی علاقہ کوہ سبز کی ذیلی تحصیل کلک تھا۔

خضدار میں انڈپینڈنٹ کے صحافی عامر بجوئی کے مطابق حملے کا نشانہ بننے والا علاقہ ایک پرامن خطہ سمجھا جاتا ہے، جو تجارت کے حوالے سے اہم ہے۔ یہ سرحد کے مرکزی تجارتی پوائنٹ چیدگی سے تقریباً 40 سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

دھماکے میں ایک مسجد کو بھی نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔ علاقہ مکینوں کے مطابق ایک جہاز آیا، جس کے ذریعے دھماکا کیا گیا۔

یہ علاقہ، سنگلاخ اور میدانی ہے، جہاں دوسرے ذرائع آمدن نہ ہونے باعث لوگ سرحدی تجارت پر انحصار کرتے ہیں۔ جان سے جانے والوں کی شناخت عمیرہ اور سلمان کے طور پر ہوئی ہے جبکہ زخمیوں میں عاصمہ، رقیہ، عائشہ اور مریم شامل ہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے پہلے ہی تہران میں ایرانی وزارت خارجہ میں متعلقہ سینیئر عہدیدار کے پاس شدید احتجاج ریکارڈ کروا دیا ہے اور ایرانی ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں بلا کر شدید مذمت بھی کی گئی ہے۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ اس خلاف ورزی کے ’نتائج کی ذمہ داری صرف ایران پر ہو گی۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ’پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ دہشت گردی خطے کے تمام ممالک کے لیے مشترکہ خطرہ ہے جس کے لیے مربوط کارروائی کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی یکطرفہ کارروائیاں اچھے ہمسایہ تعلقات کے مطابق نہیں ہیں اور یہ دو طرفہ اعتماد کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں۔‘

یہ حملہ ایران اور پاکستان کی مشترکہ بحری مشقوں کے خاتمے کے ایک دن بعد ہوئے ہیں۔ ایرانی نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق ان مشقوں میں دونوں ممالک کی بحری افواج کے میزائل لانچرز اور جنگی جہاز تعینات کیے گئے، جو آبنائے ہرمز اور خلیج عرب میں منعقد ہوئیں۔

دوسری جانب منگل کو ہی ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے موقعے پر ملاقات اور مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

 

ایران کے وزیر خارجہ اور پاکستان کے نگراں وزیراعظم نے اس ملاقات میں باہمی روابط  اور تعاون میں فروغ کا جائزہ لینے کے ساتھ ہی علاقائی اور عالمی مسائل پر بھی گفتگو کی، تاہم سرکاری اعلامیے میں سرحدی کشیدگی پر باتچیت کا ذکر نہیں ہوا۔

دونوں رہنماؤں نے مغربی ایشیا کے حالات، غزہ کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں، مظلوم فلسطینی عوام کی نسل کشی اور بحیرہ احمر میں کشیدگی کے بارے میں بھی تفصیل سے گفتگو کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے گذشتہ سال 25 دسمبر کو رپورٹ کیا تھا کہ ملک کے جنوب مشرقی صوبے سیستان بلوچستان میں ایک پولیس سٹیشن پر جیش العدل کے حملے میں 11 سکیورٹی اہلکار جان سے گئے جبکہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایران کے سرکاری میڈیا کے حوالے سے مزید بتایا تھا کہ سیستان بلوچستان کے قصبے رسک میں ہونے والی جھڑپوں میں جیش العدل کے متعدد ارکان بھی مارے گئے تھے۔
 
پاکستانی دفتر خارجہ نے ایک بیان میں پولیس سٹیشن پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے دوطرفہ اور علاقائی تعاون کے ذریعے ’دہشت گردی‘ سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
 
ایران کے نیم سرکاری خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق گذشتہ برس 23 جولائی کو زاہدان شہر میں ایک ’دہشت گرد‘ حملے میں کم از کم چار ٹریفک پولیس اہلکاروں کی موت واقع تھی۔
 
اس سے قبل آٹھ جولائی، 2023 کو مسلح افراد اور خود کش حملہ آوروں نے زاہدان کے ایک پولیس سٹیشن پر حملہ کیا تھا، جس میں دو پولیس افسران اور چار حملہ آوروں کی اموات ہوئی تھیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان