ایل او سی دھرنا ختم: ’کارکن رہا نہ ہوئے تو شٹر ڈاؤن ہڑتال ہوگی‘

جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے دھڑے نے ’آزادی مارچ‘ کے دوران گرفتار 38 کارکنوں کی رہائی کے لیے 12 ستمبر کی ڈیڈ لائن دے دی۔

سردار صغیر کے مطابق پولیس نے گرفتار کارکنوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا ہے (فوٹو: حارث قدیر)

’خود مختار کشمیر‘ کی حامی جماعت جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے ایک دھڑے نے لائن آف کنٹرول پر تین روز سے جاری دھرنا ختم کرتے ہوئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کو گرفتار 38 کارکنوں کی رہائی کے لیے 12 ستمبر تک کی ڈیڈ لائن دی ہے۔

لبریشن فرنٹ کے اس دھڑے کے سربراہ سردار صغیر خان نے کہا ہے کہ اگر گرفتار کارکنوں کو غیر مشروط طور پر رہا نہ کیا گیا تو 13 ستمبر سے پورے ضلع پونچھ میں شٹر ڈاؤن ہڑتال ہو گی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے سردار صغیر خان نے بتایا کہ محرم کے احترام اور اہلِ تشیع جماعتوں کی تجویز پر دھرنا ختم کیا گیا۔ ’ہم نےحکومت اور انتظامیہ کو بتا دیا ہے کہ اگر 12 ستمبر تک ہمارے تمام کارکن غیر مشروط طور پر رہا نہ ہوئے تو 13 ستمبر سے شٹر ڈاؤن ہڑتال اور ریاست گیر تحریک شروع کی جائے گی۔ ہمارا مارچ پُر امن تھا مگر اسے خفیہ ہاتھوں نے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔‘

ایل اور سی دھرنا: کتنے لوگ تھے؟

ہفتے کے روز جے کے ایل ایف (سردار صغیر گروپ) کی کال پر ہزاروں افراد نے ایل او سی پر تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ کی جانب احتجاجی مارچ شروع کیا، جس کا مقصد ’بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن اور ایل او سی پر جاری گولہ باری کے خلاف احتجاج‘ بتایا گیا۔ ’آزادی مارچ‘ کے نام سے اس جلوس میں آزاد ذرائع کے مطابق کم از کم 10 ہزار لوگ شریک ہوئے تاہم حکام نے یہ تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ بتائی ہے۔

اس مارچ کو جے کے ایل ایف کے علاوہ این ایس ایف نامی قوم پرست جماعت کی بھی حمایت حاصل تھی جبکہ منتظمین کے بقول مارچ میں شریک بیشتر لوگ بغیر کسی جماعتی تعلق کے احتجاج میں شامل ہوئے۔

مارچ میں موجود صحافی حارث قدیر کے مطابق مختلف علاقوں سے آنے والے جلوس دوارندی کے مقام پر اکھٹے ہوئے تو مجمع کی تعداد 10 ہزار تک پہنچ گئی۔

پولیس اور مظاہرین میں تصادم

مظاہرین نے جب دوارندی سے تیتری نوٹ کی جانب پیش قدمی کی کوشش کی تو پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ شروع کر دی جس سے مظاہرین مشتعل ہوگئے۔

کئی گھنٹوں تک پولیس اور مظاہرین کے درمیان جاری کشیدگی کے دوران حکام کے مطابق آٹھ پولیس اہلکاروں سمیت 26 افراد زخمی ہوئے اور پولیس نے کم از کم 38 مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔

ہجیرہ پولیس اسٹیشن کے ایک اہلکار نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ہم نے صرف اُن لوگوں کو گرفتار کیا ہے جنہوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔ تاہم جے کے ایل ایف نے پتھراؤ کرنے والوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے پولیس پر پہلے شیلنگ شروع کرنے کا الزام لگایا۔

پولیس حکام کے مطابق مظاہرین طے شدہ راستے کے بجائے ایک ایسے راستے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے جو بھارتی فوج کی چوکیوں کے سامنے سے گزرتا تھا۔بھارتی فورسز کی طرف سے فائرنگ کے خدشے کے پیش نظر مظاہرین کو چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں دھرنے کے مقام تک لے جانے کی کوشش کی گئی، تاہم وہ سب اکھٹے جانے پر بضد تھے۔

جلوس میں شامل ایک نوجوان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان دوارندی کے مقام پر ہونے والا تصادم غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔ پولیس پر پتھراؤ کرنے والوں میں مقامی نوجوان شامل تھے تاہم پولیس نے جن کارکنوں کو گرفتار کیا گیا وہ راولاکوٹ اور باغ ضلع سے آئے تھے۔

کوٹلی میں بھی گرفتاریاں

مارچ میں شرکت کے لیے کوٹلی سے آنے والے جے کے ایل ایف کے ایک اور دھڑے کے جلوس کو سرساوہ کے مقام پر پولیس نے روک لیا اور انہوں نے وہیں دھرنا دے دیا۔ جے کے ایل ایف کے اس دھڑے کے سربراہ ڈاکٹر توقیر گیلانی نے پولیس کی جانب سے پر امن مظاہرین پر تشدد اور کم از کم دو کارکنوں کو حراست میں لینے کا الزام لگایا۔ تاہم بعد میں انہوں نے تصدیق کی کہ کوٹلی میں گرفتار کارکنوں کو دوسرے روز رہا کر دیا گیا۔

’کارکنوں پر تشدد ہو رہا ہے‘

 سردار صغیر احمد نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے گرفتار 38 میں سے 37 کارکنوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور ایس پی پونچھ نے اپنی موجودگی میں کارکنوں پر تشدد کروایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ پُر امن احتجاج کا معاہدہ تھا اور ہم اس پر کاربند بھی رہے۔ ’جن لوگوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا وہ ہمارے کارکن نہیں اور ہمیں شبہ ہے کہ انہیں کسی نے شرارتاً جلوس میں شامل کیا۔‘

تاہم انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ پولیس نے ہمیں دھرنے کے طے شدہ مقام سے بہت پہلے روکا اور آنسو گیس کی شیلنگ شروع کی۔

 جے کے ایل ایف کا مختصر تعارف

تہاڑ جیل میں قید کشمیری رہنما یاسین ملک کی جماعت جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کئی دھڑوں میں تقسیم ہے۔ یہ جماعت کشمیر کی مکمل آزادی اور خود مختاری کے لیے ریاست کے تمام حصوں سے فوجی انخلا کا مطالبہ کرتی ہے۔

جے کے ایل ایف کے بانی امان اللہ خان اور معروف کشمیری لیڈر مقبول بٹ تھے۔ ابتدائی طور پر جے کے ایل ایف ’محاذ رائے شماری‘ نامی سیاسی جماعت کے مسلح ونگ کے طور پر سامنے آئی۔ 1989 میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں شروع ہونے والی مسلح تحریک میں بھی جے کے ایل ایف سرگرم رہی۔

تاہم 1994 میں یاسین ملک کی سربراہی میں اس جماعت نے ’غیر معینہ مدت‘ کے لیے سیز فائر اور ہتھیار چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے تنازع کشمیر کے پر امن حل کے لیے کوششیں شروع کرنے کا اعلان کیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا