بینگن، بوتل، چارپائی: پی ٹی آئی امیدواروں کے ’عجیب‘ انتخابی نشانات

بلے کا انتخابی نشان چھننے کے بعد پی ٹی آئی امیدواروں کا کہنا ہے کہ ان کو جو نشان الاٹ ہوئے اس کا مقصد ان کی تضحیک کرنا ہے۔

آٹھ فروری کے انتخابات میں سابق وزیر اعظم عمران کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ عامر مغل اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی نشست کے امیدوار ہیں اور ان کے حصے میں انتخابی نشان کے طور ’بینگن‘ آیا ہے۔

ایک انتخابی جلسے کے دوران عامر مغل ہاتھ میں بڑے سائز کا بینگن لے کر پہنچ گئے اور الزام لگایا کہ ان کو دیے گئے ’عجیب و غریب‘ انتخابی نشان کے باعث ان کی مقبولیت اور الیکشن مہم متاثر ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’بینگن اب پورے پاکستان میں مشہور انتخابی نشان بن چکا۔ اب یہ سبزیوں کا بادشاہ ہے۔‘

پاکستان میں، جہاں خواندگی کی شرح صرف 60 فیصد ہے، ہونے والے ہر انتخابات میں بیلٹ پیپرز پر امیدواروں کی شناخت کے لیے انتخابی نشانات کا استعمال ہوتا ہے۔

یہ نشانات الیکشن کمیشن آف پاکستان سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کو الاٹ کرتا ہے۔

انتخابی نشانات ملنے کے بعد امیدوار ووٹرز کی آگاہی کے لیے وہ نشانات اپنی انتخابی مہمات کے دوران عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف سے ’بلا‘ چھن جانے کے بعد پارٹی کے تمام امیدوار آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور ہر ایک کو الگ الگ انتخابی نشان الاٹ ہوا ہے۔

کچھ امیدواروں کا کہنا ہے کہ حکام انہیں ایسے نشانات الاٹ کر کے ان کی انتخابی مہم میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو یا تو توہین آمیز ہیں یا عجیب وغریب۔

بعض امیدواروں کو ایسے انتخابی نشانات دیے گئے جن کی وجہ سے انہیں انتخابی مہم موثر بنانے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔

الیکشن کمیشن کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انتخابی نشانات کا انتخاب آزاد امیدواروں کے لیے تیار کی گئی فہرست میں سے کیا گیا اور ’یہ مکمل طور پر ریٹرننگ افسروں کا استحقاق ہے۔‘

بینگن پاکستان میں سبزی کے طور پر بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ 46 سالہ عامر کے مطابق: ’الیکشن کمیشن نے ہمارا مذاق بنانے کے لیے یہ انتخابی نشان دیا۔ ہمیں عجیب محسوس ہوتا ہے۔‘

مغل کی ٹیم نے اسے قبول کر لیا ہے۔ ان کے ایک معاون جامنی رنگ کی اس سبزی کا تھیلا لے کر ان کے پیچھے ہوتے ہیں۔

انھوں نے بینگن کو متبرک شے کے طور پر اٹھا رکھا ہوتا ہے اور جب عامرتقریر کرتے ہیں تو ان کے عقب میں بینگن موجود ہوتا ہے۔

ووٹروں سے خطاب کرتے وقت انہوں نے ہاتھ میں بینگن اٹھا رکھا ہوتا ہے۔ ان کی الیکشن مہم کی مقبولیت اتنی زیادہ ہے کہ ان کا دعویٰ ہے کہ بینگن کی قیمت میں چار گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

مغل نے کہا کہ ’یہ انتخابی نشان بھی مجھے غیرمعمولی شہرت دے رہا ہے۔ ہر کوئی اسے دیکھنا چاہتا ہے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ نشان عمران خان کے امیدوار کا ہے۔‘

این اے 167 حاصل پور سے پی ٹی آئی کے امیدوار ملک اعجاز گدن کو ’چارپائی‘ کا انتخابی نشان دیا گیا ہے۔

50 سالہ امیدوار کے بقول: ’انہوں نے ہمیں ان انتخابی نشانات کے ذریعے تضحیک کرنے کی کوشش کی جو وہ ہمیں دے رہے ہیں۔

’کچھ امیدواروں کو لوگوں کو یہ بتانے میں شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ انہیں کون سا نشان ملا۔ یہ الیکشن نہیں بلکہ ظلم ہے۔‘

اعجاز گدن کہتے ہیں کہ ’چارپائی بڑے کام کی چیز ہے۔ جب ہم زندہ ہیں تو اس پر آرام کرتے ہیں اور جب مر جاتے ہیں اس پر رکھ کر سفر آخرت پر لے جایا جاتا ہے۔

’میرا انتخابی نشان ہر گھر میں موجود ہے مجھے اپنے ووٹروں کو اس کے بارے میں بتانا نہیں پڑتا۔‘

پاکستان مسلم لیگ ن شیر کے انتخابی نشان کے ساتھ انتخابی مہم چلا رہی ہے لیکن اعجاز گدن کو اس کی پروا نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’شیر خون کا پیاسا جانور ہے۔ ہمارے معاشرے میں کسی جانور کے لیے کوئی جگہ نہیں۔‘

عمران خان کی سابقہ حکومت میں وفاقی وزیر رہنے والے شہریار آفریدی اس وقت برہم ہوئے تھے جب انہیں ’بوتل‘ کا انتخابی نشان جاری کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پشتو زبان میں کسی کو بوتل کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ’خالی برتن‘ ہے، جس میں کوئی کشش نہیں ہوتی۔

کوہاٹ شہر سے 45 سالہ امیدوار شہر یار آفریدی کے مطابق: ’مجھ سمیت پی ٹی آئی کے زیادہ تر امیدواروں کو ایسے نشانات دیے گئے جن کا مقصد منفی تاثر پیدا کرنا ہے۔

’ہمیں جان بوجھ کر ایسے نشانات دیے گئے جنہیں ہمارا مذاق اڑانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے انتخابی نشان کی تبدیلی کے لیے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا لیکن انہیں کوئی ریلیف نہیں ملا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب ہم انتخابی مہم کے لیے میدان میں اترے تو بوتل کے نشان کے حوالے سے ہمیں اتنا ردعمل ملا کہ اس نے خود بخود ہماری مہم کو نقصان پہنچایا۔‘

تاہم انہوں نے بوتل کے انتخابی نشان کا ایک اور مطلب بھی بیان کیا۔

’بوتل مطلب صرف شراب نہیں بلکہ دوا بھی بوتل میں آتی ہے۔ اس لیے ہم نے اپنے انتخابی نشان کو دوا کی بوتل میں تبدیل کر دیا۔ یعنی ہم معاشرے کی تمام بیماریوں کا علاج کر سکتے ہیں۔‘

پی ٹی آئی کے چند دوسرے امیدواروں کو جو ’عجیب و غریب‘ نشان ملے ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:

  • مستنصر باللہ: بھیڑ
  • عمیر نیازی: بطخ
  • خرم شیر زمان: ڈھول
  • پرویز الٰہی: گدھا گاڑی
  • سردار نبیل خان ڈاہر: ہری مرچ
  • جمشید دستی: ہارمونیم
  • روزینہ بھٹو: بکری
  • چوہدری اقبال وڑائچ: جوتے
  • راجہ سلیم: باجہ
  • سمیع اللہ چوہدری: شاور
  • مہربانو: چمٹا
  • عمیر وصی ظفر: چوزہ

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست