مسلم لیگ ن کے مرکزی دفتر کی لائٹیں اور دروازے بند

’وکٹری سپیچ‘ کے بغیر نواز شریف اور دیگر رہنماؤں کی روانگی کے موقعے پر وہاں موجود کارکنان سے دوبارہ صبح جمع ہونے کا کہا گیا ہے۔

ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد حسب معمول مسلم لیگ ن کے مرکزی دفتر ماڈل ٹاؤن میں نواز شریف کی ’فاتحانہ‘ تقریر کے لیے اسی طرح کا انتظام کیا گیا تھا، جس طرح 2013 کے انتخابات کی رات کیا گیا تھا۔

فرق صرف یہ تھا کہ اس الیکشن میں ن لیگ کو رات 12 بجے سے قبل واضح برتری حاصل ہو چکی تھی جس کی بنیاد پر نواز شریف نے نتائج مکمل ہونے سے قبل ہی وکٹری سپیچ کی تھی۔

اس بار بھی گیراج کی اسی چھت پر عارضی سٹیج بنایا گیا، لائٹس لگائی گئیں اور کرین کیمرہ بھی نصب کر دیا گیا جبکہ میڈیا کی لائیو کوریج کے انتظامات بھی کر لیے گئے۔

چھ بجے کے قریب جب ہم ن لیگ کے مرکزی دفتر پہنچے تو روایتی طور پر دفتر کے مرکزی دروازے کارکنوں کے لیے بند تھے۔

باہر کچھ کارکن موجود تھے تاہم وقت کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، لیکن سکیورٹی پر معمور عملہ انہیں بتا رہا تھا کہ گیٹ ایک گھنٹے بعد کھولا جائے گا۔

دفتر کے اندر لان میں کرسیاں لگائی گئی تھیں اور کھانے کے لیے میزیں بھی برتنوں سے سجی تھیں۔ سات بجے کے بعد میاں نواز شریف مریم نواز کے ہمراہ پہنچے جبکہ شہباز شریف بھی علیحدہ گاڑی پر آگئے۔ بعض رہنما پہلے ہی سے موجود تھے۔

قیادت کو دیکھ کر کارکنوں نے پرجوش نعرے بازی شروع کر دی اور پارٹی ترانوں پر جھومنے لگے۔

نواز شریف دیگر قیادت کے ساتھ دفتر کے الگ مخصوص حصے میں چلے گئے جہاں صرف خاص رہنماؤں کو ہی جانے کی اجازت ملتی ہے۔ وہاں پر بیٹھ کر نتائج کا جائزہ لیا گیا لیکن جیسے جیسے ٹی وی پر غیرحتمی نتائج سامنے آنے لگے، لیگی کارکنوں اور رہنماؤں کے چہرے خوشی سے اچانک افسردگی میں بدلتے دکھائی دیے۔

اچانک آٹھ بجے کے قریب کھانا بھی کھول دیا گیا جس پر کارکن ٹوٹ پڑے۔ اس کے بعد بھی کارکنوں میں زیادہ جوش دکھائی نہیں دیا اور وہ ایک دوسرے سے پریشان ہوکر پوچھتے دکھائی دیے کہ ہم متوقع تعداد میں نشستوں پر آگے کیوں نہیں؟

جب ہم چند صحافی اندر ایک ہال کی طرف بڑھے جہاں دور دراز سے آئے غیر معروف کارکن بھی موجود تھے۔ تو انہوں نے صحافیوں سے یہی سوال کیے کہ ’ہماری کتنی نشستیں ہوں گی؟ کیا ہماری پارٹی حکومت بنا پائے گی؟ اگر سادہ اکثریت نہ ملی مخلوط حکومت بنانا پڑی تو کون وزیر اعظم ہوگا؟‘

ان کے سوالوں پر صحافی بھی اپنے اندازے ہی بیان کر رہے تھے۔ ان کارکنوں کے چہروں سے لگتا تھا کہ وہ بھاری اکثریت کے یقین کے ساتھ یہاں قیادت کی وکٹری سپیچ سننے آئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وقت گزرتا گیا ن لیگی رہنماؤں اور کارکنوں کے چہروں کے تاثرات بھی بدلتے دکھائی دیے۔ جیسے جیسے نتائج سامنے آرہے تھے ان کے حوصلے کم ہو رہے تھے۔ کوئی امیدواروں کی مہم پر سوال اٹھا رہا تھا تو کوئی یہ کہتا سنائی دیا کہ ’ہمارے امیدوار ووٹرز کو نکالنے کی بجائے ضرورت سے زیادہ پر اعتماد تھے کہ انہیں بغیر محنت کیے کوئی غیبی طاقت کامیاب کرا دے گی‘۔

صحافی نواز شریف کے پاس سے آنے والے رہنماؤں سے بے چین ہو کر پوچھتے تھے کہ ’میاں صاحب کتنے بجے باہر آئیں گے؟‘ تو وہ مسکرا کر جواب دیتے ’بس تھوڑی دیر میں آتے ہیں‘۔

یہ سلسلہ کئی گھنٹے جاری رہا اور کارکن بھی سردی میں انتظار کرتے رہے۔

پونے بارہ بجے کے قریب اچانک دفتر کے مخصوص حصے سے نواز شریف اور مریم نواز اپنی گاڑی جبکہ شہباز شریف اپنی گاڑی میں سوار ہوتے دکھائی دیے۔

یہ منظر دیکھ کر سب حیران رہ گئے کہ تقریر کرنے کے لیے گیراج کی چھت پر آنے کی بجائے گاڑیوں میں کہاں چل دیے۔ سبھی ان گاڑیوں کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پاس موجود ایک دوسرے سے جاننے کی کوشش کرنے لگے کہ یہ کہاں چل دیے؟

بہر حال جب اعظم نذیر تارڑ دبے پاؤں آتے دکھائی دیے تو پہلے صحافیوں نے انہیں دبوچ لیا پھر کارکن بھی اس طرف لپکے۔ ان سے پوچھا میاں نواز شریف سمیت قیادت کہاں جارہی ہے؟ انہوں نے مسکرا کر جواب دیا نتائج میں ابھی کیونکہ تاخیر ہے اس لیے گھر جا رہے ہیں۔

انہوں نے کارکنوں سے صبح دوبارہ جمع ہونے کا کہا۔

گاڑیاں تیزی سے کارکنوں کی سوالیہ نظروں کے سامنے سے گیٹ کے باہر نکل گئیں۔ بس پھر کیا تھا دفتر کے ملازمین نے فوری طور پر لائٹیں بجھانا شروع کر دیں اور جو لوگ دفتر کے اندر سردی سے بچنے کے لیے اضافی کمروں میں موجود تھے انہیں نکالنا شروع کر دیا۔

باہر لان میں دیکھا تو کرسیاں اور ٹیبلیں بھی گاڑیوں پر لوڈ ہونے لگیں۔ لہذا صحافیوں نے بھی اپنے کیمرے اور لائیو سسٹم سمیٹنا شروع کر دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جشن کی بجائے ن لیگ کا مرکزی دفتر 180 ایچ ماڈل ٹاؤن خالی ہونے لگا۔

وہاں موجود صحافی رانا اشفاق نے اس جملے کے ساتھ اجازت چاہی کہ ’میاں صاحب کو 2013 کی طرح جن نتائج کی امید تھی شاید وہ ابھی سامنے نہیں آئے لہذا وکٹری سپیچ تو کیا انہیں حکومت بنانے کی فکر پڑ گئی ہے۔ لگدا اے میاں جی جو سوچ کے وطن واپس آئے سی او امید پوری نئی ہوئی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست