اتحادی حکومت پاکستان کا اندرونی معاملہ: امریکہ

امریکہ نے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات کے دوران دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتحادی حکومت کا قیام پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔

14 فروری، 2024 کی اس تصویر میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر ایک نیوز کانفرنس کے دوران (اے ایف پی)

امریکہ نے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات کے دوران دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتحادی حکومت کا قیام پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔

پاکستان میں حالیہ عام انتخابات کے بعد 13 جنوری کی رات چھ بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اتحادی حکومت بنانے پر اتفاق کیا ہے اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا گیا ہے جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اپنا انتخابی نشان چھن جانے کے بعد سے مختلف آئینی و قانونی مسائل میں گھری ہوئی ہے۔

انتخابی نتائج میں تاخیر کے باعث مختلف علاقوں میں سیاسی جماعتوں کے احتجاج اور دھاندلی کے الزامات بھی سامنے آئے ہیں جبکہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے پاکستان میں عام انتخابات کے دوران ’لیول پلیئنگ فیلڈ، شمولیت اور شفافیت کے فقدان‘ پر تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا، جسے اسلام آباد کی جانب سے مسترد کیا جا چکا ہے۔

بدھ کو امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک نیوز کانفرنس میں پاکستان میں عام انتخابات، ممکنہ اتحادی حکومت اور دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے صحافیوں کے سوالوں کے تفصیلی جواب دیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان سے سوال کیا گیا کہ ’امریکی محکمہ خارجہ امریکی قانون سازوں کے اس دباؤ کا سامنا کیسے کر رہا ہے جس میں انہوں نے پاکستان میں عام انتخابات کے نتائج کو اس وقت تک تسلیم نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے جب تک دھاندلی کے الزامات کی مکمل تحقیقات نہ ہو جائیں۔‘

اس سوال کے جواب میں متھیو ملر نے کہا: ’ہم نے ان الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ ایک مناسب اقدام ہے۔ یہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بے ضابطگیوں کے سوال پر ہمارا ردعمل ہوتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم چاہتے ہیں کہ ان کی مکمل تحقیق ہو اور یہ معاملہ حل ہو، اس لیے ہم اس مطالبے کا اعادہ کرتے ہیں۔‘

میتھیو ملر نے مزید کہا کہ ’یہ واضح ہے کہ پاکستان میں عام انتخابات مسابقتی تھے اور ہم نئی حکومت کے قیام کے بعد اس کے ساتھ کام کرنا چاہیں گے جسے پاکستانی عوام نے منتخب کیا ہے۔‘

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان سے سوال کیا گیا کہ ’پاکستان میں ایک اتحادی حکومت بننے جا رہی ہے جس میں عمران خان کی جماعت شامل نہیں ہے۔ امریکہ کا اس بارے میں کیا موقف ہے کہ ایک جمہوری اصولوں کے تحت سب سے بڑی جماعت اس اتحاد سے باہر ہو گی۔‘

اس سوال کے جواب میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک اندرونی معاملہ ہے۔ کئی ممالک میں ایسا دیکھا گیا کہ جہاں پارلیمانی نظام حکومت ہے اور جہاں کسی جماعت کو اکثریت نہیں ملتی وہاں ایسے اتحاد قائم کیے جاتے ہیں۔ یہ امریکہ کا فیصلہ نہیں ہے۔ یہ پاکستان کا فیصلہ ہے۔‘

حالیہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں، جس کے بعد وہاں ان کی حکومت بننے کی راہ ہموار ہے۔ جب ترجمان میتھیو ملر سے سوال کیا گیا کہ ’پاکستان میں اس صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آ رہی ہے جو افغانستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے، کیا ہم طالبان کی طاقت کو بڑھتا ہوا دیکھیں گے؟‘

میتھیو ملر نے جواب دیا: ’میں مستقبل کے حوالے سے کسی مفروضے پر بات نہیں کرنا چاہوں گا، نہ ہی پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے حوالے سے کسی سوال کا جواب دینا چاہوں گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’جہاں تک افغانستان کے حوالے سے ہماری پالیسی ہے، ہم اس بارے میں کافی واضح ہیں یا پاکستان کی بات ہے تو ہم سلامتی کونسل کی دسمبر کی قرارداد پر عمل درآمد چاہیں گے۔‘

چند روز قبل بھی امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ پاکستان میں عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی مکمل تحقیقات ہونی چاہییں، تاہم پاکستان کی نگران حکومت نے دھاندلی کے ان الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔

12 فروری کو میڈیا سے گفتگو میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا تھا کہ یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ دوست ممالک ہیں لیکن وہ اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان ممالک نے سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کو صحیح مان لیا اس لیے اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں۔ بقول نگران وزیراعظم: ’ضرورت پڑی تو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات اپنے قوانین کے مطابق کریں گے۔‘

انہوں نے امریکی کانگریس کے بعض اراکین کے مبینہ دھاندلی کے الزامات کو ’ذاتی رائے‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ امریکی حکومت کی رائے نہیں۔

انوار الحق کا مزید کہنا تھا کہ اگر دھاندلی کسی نے کرنی ہوتی تو خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ فوج موجود تھی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا