سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان کے حالات کو اس قدر خراب کیا گیا کہ ناقدین یہ کہتے رہے کہ حالات کبھی بھی ٹھیک نہیں ہوں گے لیکن ان کے بعد کی ہر حکومت نے کسی حد تک کوشش کی کہ صوبہ کے حالات کو مزید بگڑنے سے بچایا جا سکے۔
تاہم انوارالحق کاکڑ کی نگران حکومت کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ انہوں نے ان جمہوری حکومتوں کی تقلید نہیں کی بلکہ اپنے سخت گیر لہجے کی وجہ سے بلوچستان اور وفاق کے تعلقات کو ایک مرتبہ پھر اس نہج پر پہنچا دیا جہاں جنرل مشرف نے چھوڑا تھا۔
بلوچ قوم پرستوں سے متعلق کاکڑ صاحب کی رائے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور نہ ہی ان کے اسٹیبلشمنٹ نواز خیالات کسی سے پوشیدہ ہیں۔ وہ ایک ایسے موقعے پر نگران وزیراعظم بننے جب بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی کی تحریک نے ایک نیا موڑ لیا جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ جب ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں لاپتہ افراد کے لواحقین نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا فیصلہ کیا تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ان کا نگران حکومت کے ساتھ سامنا یا ٹکراؤ نہ ہو۔
حالات کا تقاضا تو یہ تھا کہ نگران حکومت دونوں اطراف میں پائی جانے والی کشیدگی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی اور لوگوں کو یہ باور کراتی کہ اگرچہ سابق حکومتوں نے صوبے کی جانب جارحانہ یا متنازع پالیسی اپنائی ہوئی تھی تو نگران حکومت ان تمام پالیسوں سے لاتعلق ہو کر مفاہمت کا راستہ اختیار کرے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے بارے میں نگران وزیراعظم نے جو جارحانہ لہجہ اپنایا اور جس طرح ان کی کردار کشی کی اس نے پورے ملک کو ششدر کر دیا۔ انوارالحق کاکڑ اس وقت پورے ملک کے وزیراعظم تھے نہ کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت یا مکتبہ فکر کے۔
ان کی حکومت نے پرامن طور پر اپنے جائز حقوق اور اپنے عزیزوں کی بازیابی کا مطالبہ کرنے والوں کو دہشت گرد یا دہشت گردوں کا حامی کہہ کر تمام مظاہرین کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ انہوں نے آگے چل کر اپنے کلمات پر پشمانی کا اظہار کیا اور نہ ہی حالات کو بدتر ہونے سے بچانے کی کوئی کوشش کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ کم از کم اتنا کر سکتے تھے کہ لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملتے اور انہیں بتاتے کہ اگرچہ لوگوں کو لاپتہ کرنے کی پالیسی ان کی حکومت نے شروع نہیں کی تھی وہ ایسی ماروائے عدالت کارروائیوں کی ہرگز حمایت نہیں کرتے اور آنے والی حکومت سے بھی یہی گزارش کریں گے کہ اقتدار میں آنے کے فوری بعد بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملہ کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ یہ معاملہ صوبہ کے عوام کے لیے باقی تمام مسائل کے مقابلے میں اب زیادہ اہم اور توجہ طلب ہو گیا ہے۔
نگران وزیراعظم کو اس لیے بھی بلوچ مظاہرین کے ساتھ ملنا چاہیے تھا کیونکہ وہ بلوچوں کی اس نئی قیادت کی ترجمانی کر رہے تھے جو کہ مستقبل قریب میں صوبہ کی سیاست میں اہم کردار ادا کرے گی اور رائے عامہ میں ان کی باتوں کو روایتی قوم پرست سیاست دانوں سے زیادہ سنجیدگی سے لیا جائے گا۔
اگرچہ یہ پہلا موقع تھا کہ بلوچوں کی یہ نئی قیادت اسلام آباد کے حکمرانوں کے سامنے کھڑی ہوئی تھی لیکن یہ یقیناً آخری بھی نہیں ہو گا۔ مستقبل میں بھی ایسے مواقع ہوں گے کہ اگر اسلام آباد میں کوئی حکومت بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہے گی تو گفت وشنید کا راستہ اسی نئی قیادت سے ہو کر گزرے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آٹھ فروری کے عام انتخابات کے بعد جو بھی نئی حکومتیں وفاق اور صوبہ میں بنتی ہیں وہ نگران حکومت کے پراشتعال بیانات اور بلوچ رائے عامہ کو اسلام آباد کے خلاف بدظن کرنے کی غلطیوں کا ازالہ کرسکیں گی؟ بدقسمتی سے اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی دو سب سے بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی ماضی کے مقابلے میں زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک لگ رہی ہیں۔ 2008 کے انتخابات کے بعد پی پی پی نے بلوچستان کو جنرل مشرف کی تباہ کن پالیسوں سے نکالنے کی خاطر غیرمعمولی کوششیں کیں جن میں اٹھارویں ترمیم سے لے کر آغاز حقوق بلوچستان پیکج شامل تھے۔
پی پی پی نے چند لاپتہ افراد کو رہا بھی کیا لیکن جو پیپلز پارٹی اس بار اگر بلوچستان میں حکومت بنائے گی یا حزب اختلاف میں بیٹھے گی وہ جماعت صوبائی سطح پر بہت ہی مختلف ہو گی۔
پی پی پی کے بارے میں تاریخی اعتبار سے یہ کہا گیا ہے کہ یہ جماعت اسٹیبلشمنٹ مخالف اور عوام دوست ہے لیکن عام انتخابات سے پہلے اس پارٹی نے بلوچستان میں اپنے دروازے چند ایسے افراد کے لیے کھولے جو بظاہر نہیں چاہیں گے کہ صوبے اور وفاق کے تعلقات بہتر ہوں، بلوچ قوم پرستوں سے کامیاب مذاکرات ہوں اور لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔
ان میں سرفراز بگٹی بھی ہیں جو ناصرف سابق صوبائی وزیر داخلہ رہے ہیں بلکہ وہ انوار کاکڑ کی نگران حکومت میں بھی وفاقی وزیر داخلہ رہے ہیں۔ سرفراز بگٹی بلوچ قوم پرستوں کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے اور اگر ان کے ماضی کے بیانات اور تقاریر کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی کاکڑ صاحب کی طرح اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جو بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں سے یکسر انکاری ہیں۔
وہ دہائیوں سے جاری اس سنگین بحران کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنے کی بجائے اس شارٹ کٹ کی تلاش میں لگے رہتے ہیں کہ کس طرح بلوچستان میں اسلام آباد کے خلاف پائے جانے والی عوامی ناراضگی کا ذمہ دار غیرملکی قوتوں کو ٹھہرائیں۔
ماضی میں بگٹی صاحب کی آواز اس لیے بھی توانا نہیں سمجھی جاتی تھی کیونکہ ان کی قربت ایسی جماعتوں (بالخصوص بلوچستان عوامی پارٹی) کے ساتھ ہوتی تھی جن کے بارے میں یہی کہا جاتا تھا کہ وہ اسٹیبشلمنٹ ہی کی پیداوار اور حامی ہیں لیکن اس بار اگر ان کے بیانیہ کو پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعت کا پلیٹ فارم حاصل ہو گا تو یقیناً اس سے یہ امیدیں دم توڑ دیں گی کہ ملک کی سیاسی جماعتیں بلوچستان کے مسئلہ کو اسٹیبلشمنٹ سے مختلف زاویے سے دیکھتی ہیں۔
اگر ملک کی سیاسی و عسکری قیادت بلوچستان کے معاملہ پر ایک ہی طرح سوچنے لگے تو شاید آنے والے دورِ حکومت میں بھی بلوچستان کے مسئلے کا کوئی سیاسی حل ممکن نہیں ہو گا بلکہ جس معاملہ کو وزیراعظم کاکڑ صاحب نے مس ہینڈل کیا اس میں مزید بگاڑ دیکھنے میں آئے گا۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔