سائنس دانوں نے پلاسٹک کھانے والی پروٹین دریافت کرلی

یونیورسٹی آف سٹرلنگ کی فیکلٹی آف نیچرل سائنسز کے سائنس دانوں نے پلاسٹک کے ملبے پر پائے جانے والے بیکٹیریا کے اہم کردار کے بارے میں انکشاف کیا ہے۔

21 ستمبر 2022 کو پاناما سٹی کے کوسٹا ڈیل ایسٹ میں ساحل سمندر پر پلاسٹک کا فضلہ اور کوڑا نظر آرہا ہے۔ (لوئس اکوسٹا/ اے ایف پی)

ایک تحقیق کے مطابق سائنس دانوں نے ایسی پروٹینز دریافت کر لی ہیں جو پلاسٹک کو تلف کرنے میں مؤثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس دریافت کو اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

یونیورسٹی آف سٹرلنگ کی فیکلٹی آف نیچرل سائنسز کے سائنس دانوں نے پلاسٹک کے ملبے پر پائے جانے والے بیکٹیریا کے اہم کردار کے بارے میں انکشاف کیا ہے۔

انہیں ایسے شواہد ملے ہیں جو پلاسٹک کے اتلاف کا تعین کر سکتے ہیں، جسے تلف ہونے میں فی الحال سینکڑوں سال لگ سکتے ہیں۔

یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ انہیں جغرافیائی علاقوں کے سمندروں میں موجود پلاسٹک پر زندہ خوردبینی اجسام ملے ہیں اور اس سلسلے میں جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ ان اجسام کے کردار کے بارے میں مزید تحقیق پر زور دیتے ہیں۔

تحقیق میں کم یاب اور زیر مطالعہ بیکٹیریا کی بھی نشاندہی کی گئی جو پلاسٹک کے اتلاف میں مدد کرسکتے ہیں اور پلاسٹک کی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے نئی بصیرت فراہم کرتے ہیں۔

سائنس دانوں نے بیلجیئم کی یونیورسٹی آف مونز کے ماہرین کے ساتھ مل کر مشرقی لوتھیان کے گلین ساحل سے لیے گئے پلاسٹک کے نمونوں میں موجود پروٹین کا تجزیہ کیا۔

ڈاکٹر سبین ماتالانا سرگت کی سربراہی میں ہونے والی اس تحقیق میں مؤثر مائیکرو آرگنزم کی شکل میں ظاہر ہونے والے پروٹینز کا تجزیہ کرنے میں انوکھا طریقہ اپنایا گیا۔

ڈاکٹر ماتالانا سرگت کے بقول: ’سمندری ماحول میں پلاسٹک کی آلودگی خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے اور اندازہ ہے کہ پلاسٹک کے کھربوں ٹکڑے دنیا کے سمندروں میں پھیل جائیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہ پلاسٹک اہم ماحولیاتی اور سماجی و اقتصادی مسائل کا سبب بنتا ہے کیوں کہ یہ سمندری پانی، ساحلی آبادیوں میں جمع ہوتا ہے اور مچھلیوں، بحری پرندوں اور سمندری ممالیہ جانوروں کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔

’مائیکرو آرگنزم ماحول میں داخل ہونے کے بعد پلاسٹک کی شکل میں آلودگی پر تیزی سے جمع ہو جاتے ہیں اور ان کا پیچیدہ ماحولیاتی تعامل سمندری نظام میں مستقبل میں پلاسٹک کی شکل کے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے۔

’اس لیے پلاسٹک کی شکل میں آلودگی پر موجود مائیکرو آرگنزم کے کام اور ماحول کو سمجھنا سمندر میں پلاسٹک کی آلودگی کے خطرات کا مناسب اندازہ لگانے اور پلاسٹک کے قدرتی طور پر اتلاف سے آگے بڑھ کر حیاتیاتی دریافت کی راہ ہموار کرنے کے لیے ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’ہماری تحقیق میں سمندر میں پلاسٹک کی شکل میں موجود آلودگی پر پائے جانے والے انتہائی چھوٹے اجسام کے ماحولیاتی کردار کو سمجھنے میں پائے جانے والے بڑے خلا پر توجہ دی گئی ہے۔

’بہت کم مطالعات نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ ان مائیکرو حیاتیات کی بدولت کون سے میٹابولک راستے سامنے آتے ہیں، خاص طور پر زیادہ سرد ماحول میں۔

’ہمارے نقطہ نظر نے جدید ترین تقابلی میٹا پروٹومکس اور ملٹی اومیکس کا استعمال کیا تاکہ نہ صرف یہ معلوم کیا جاسکے کہ سمندر میں پلاسٹک کی آلودگی پر کون کون سے مائیکروآرگنزم موجود ہوتے ہیں بلکہ یہ بھی کہ کون سے مائیکرو آرگنزم فعال ہوتے ہیں۔

’یہ بات اہم ہے کیوں کہ پلاسٹک کی آلودگی پر موجود کچھ مائیکروآرگنزم ہائیڈروکاربن اور دیگر آلودگیوں کو کم کرنے کی وجہ جانے جاتے ہیں۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات