پنجاب میں بے موسمی بارشوں کے فصلوں پر کیا اثرات ہوں گے؟

محکمہ موسمیات نے 23 سے 29 اپریل کے دوران پنجاب میں بارشوں کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں ژالہ باری کی بھی پیش گوئی کی ہے، جس سے گندم کی فصل کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

14 اپریل 2022 کی اس تصویر میں لاہور کے نواح میں ایک کسان گندم کی کٹائی میں مصروف ہے (اے ایف پی)

اپریل کا مہینہ اپنے اختتام کو ہے اور ملک میں بارشوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے جبکہ محکمہ موسمیات نے 23 سے 29 اپریل کے دوران پنجاب میں کہیں کہیں ژالہ باری کی بھی پیش گوئی کی ہے، جس سے گندم کی فصل کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

اس حوالے سے محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ شاہد عباس کا کہنا ہے کہ گندم کی فصل کو تیز ہوا اور ژالہ باری سے نقصان پہنچتا ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ اب کسان گندم کاٹ کر ساتھ ساتھ اسے سنبھالتے جاتے ہیں۔

شاہد عباس کے مطابق: ’پہلے گندم کی کٹائی ہو جاتی تھی اور وہ کئی کئی دن باہر ہی پڑی رہتی تھی۔ اگر ہم مجموعی طور پر گندم کی فصل کی بات کریں تو موسم کی بدلتی صرت حال میں کچھ کسانوں کو ذاتی طور پر نقصان تو ہو سکتا ہے جن کی فصل ایک دو ایکڑ پر ہے لیکن ملک بھر کی بات کریں تو گندم کی جتنے  علاقے میں کاشت کی گئی ہے، وہاں فصل پچھلے سالوں سے بہتر ہو گی۔‘

دوسری جانب ماہر زراعت محمود نواز شاہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان کی سب سے بڑی اور اہم فصل گندم کی ہے جو اس وقت پنجاب میں کٹائی کے عمل سے گزر رہی ہے اور یہ ایک بہت اہم وقت ہوتا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’گندم اگر کھڑی ہو اور بارش ہوجائے تو اتنا نقصان نہیں ہوتا، لیکن ژالہ باری کا نقصان ہوتا ہے کیونکہ جب برف کے چھوٹے ٹکڑے گرتے ہیں تو وہ پتوں، ٹہنیوں اور پھولوں کو توڑ دیتے ہیں۔‘

محمود نواز شاہ کے مطابق 29 اپریل گندم کی فصل کے لیے بہت نازک وقت ہوگا۔ ’زیادہ تر گندم پنجاب میں ہوتی ہے اور پنجاب صوبہ بھی بہت بڑا ہے۔ زیریں پنجاب میں گندم اٹھ رہی ہے اور وسطی پنجاب میں کٹائی ہو رہی ہے تو گندم کی فصل کو نقصان اس بات پر منحصر ہوگا کہ کب اور کس جگہ بارش ہوتی ہے۔

’اگر بارش سکھر یا رحیم یار خان میں ہوئے تو اس کا نقصان 29 تاریخ کے بعد کم ہو گا۔ اگر وسطی پنجاب میں ہوتی ہے تو پھر اس کا اثر بہت زیادہ ہوگا اور وہ بھی اگر گندم کٹ کر نیچے پڑی ہے اور ژالہ باری کا نقصان تو، گندم کہیں بھی ہو، اسے ہوگا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سب اثرات ماحولیاتی تبدیلی کے ہیں، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ اس تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے بروقت کسانوں تک آگاہی پہنچائے تاکہ نقصان سے زیادہ سے زیادہ بچا جا سکے۔‘

محمود نواز شاہ نے مزید بتایا کہ آموں کی فصل بھی انہی مہینوں میں ہوتی ہے اسے بھی ژالہ باری سے نقصان ہوتا ہے کیونکہ برف کے ٹکڑے پھل کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اس پر نشان چھوڑ جاتے ہیں۔

صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا نے صوبے بھر کی ضلعی انتظامیہ کو موسم کی صورت حال کے پیش نظر الرٹ اور تیار رہنے کی ہداہت کی ہے۔

عرفان کاٹھیا کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کو  غیر معمولی بارشوں کا سامنا ہے۔

چیف میٹرولوجسٹ شاہد عباس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’26 سے 29 اپریل تک بارشوں کی پیش گوئی ہے۔ اس طرح کا اپریل پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ اس مرتبہ معمول سے تھوڑا ہٹ کر موسم تبدیل ہوا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ موسم ریکارڈ بریکنگ ثابت ہوگا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گذشتہ برس بھی اپریل اور مئی کے مہینے قدرے ٹھنڈے ہی تھے۔ 2022 کا مارچ، اپریل اور مئی کا مہینہ بہت گرم اور خشک تھا اور زیادہ تر گذشتہ سالوں میں ایسا ہی ہوا لیکن اس سال تھوڑا فرق ہے جو معمول سے ہٹ کر ہے۔‘

پی ڈی ایم اے نے موسم کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر عوام کو یہ بھی ہدایت جاری کی ہے کہ وہ بگڑتے موسم میں احتیاط کریں۔

پی ڈی ایم اے کے ترجمان چوہدری مظہر حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مجموعی طور پر حالیہ بارشوں میں 22 افراد آسمانی بجلی گرنے سے اپنے جان سے گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم اے اس بات پر زور دے رہا ہے کہ موسم کی خرابی کی صورت میں باہر نکلنے سے گریز کریں اور ایسے حادثات سے جتنا ہو سکے بچیں۔

چیف میٹرولوجسٹ شاہد عباس کے مطابق: ’اپریل اور مئی کے مہینے میں دو تین عوامل کارفرما ہو جاتے ہیں۔ موسم تبدیل ہو رہا ہوتا ہے اور درجہ حرارت چونکہ تیزی سے بڑھ رہا ہوتا ہے اس لیے اس کے ساتھ جو سسٹم ڈویلپ ہوتے ہیں وہ زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ اس میں ہوا بھی زیادہ چلتی ہے، ژالہ باری بھی ہوتی ہے اور آسمانی بجلی بھی زیادہ چمکتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سال یا گذشتہ سالوں میں بجلی چمکنے کی شدت جو بڑھتی ہوئی لگتی ہے وہ دراصل آسمانی بجلی گرنے کے واقعات کی رپورٹنگ میکنزم میں تیزی ہے۔ اب یہ واقعات جہاں ہمارا دفتر نہیں بھی ہے، وہاں سے بھی رپورٹ ہو جاتے ہیں جبکہ پہلے ایسا نہیں تھا۔‘

بقول شاہد عباس: ’اب ہر شخص کے پاس موبائل ہے۔ جہاں کہیں آسمانی بجلی گرنے کا واقعہ ہوتا ہے وہاں سے کوئی نہ کوئی اسے رپورٹ کر دیتا ہے۔‘

عالمی جریدے سائنس میگزین میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق اگر کسی خاص علاقے کا درجہ حرارت وہاں کے اوسط درجہ حرارت سے بڑھا ہوا ہو اور وہاں بارش ہوجائے تو آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

تحقیق کے مطابق اگر اس علاقے کا درجہ حرارت اوسط درجہ حرارت سے ایک ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہو تو وہاں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات میں 12 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات