’سیلاب زدگان کی امداد اور پلاسٹک بیگ، بوتلوں کی آمد پریشان کن‘

موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات پر کام کرنے والے ماہرین کو خدشہ ہے کہ سیلاب زدگان کی امداد کے ساتھ آنے والے پلاسٹک بیگ اور پانی کی بوتلیں مستقبل میں پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں، جس سے نمٹنے کے لیے مستقل حل کی ضرورت ہے۔

پنجاب حکومت کی صاف پانی اتھارٹی سیلاب زدہ علاقوں میں ہینڈ پمپ اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا رہی ہے، جو گندے پانی کو پینے کے قابل بناتے ہیں (فوٹو: ویڈیو سکرین گریب)

موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات پر کام کرنے والے ماہرین کو خدشہ ہے کہ سیلاب زدگان کی امداد کے ساتھ آنے والے پلاسٹک بیگ اور پانی کی بوتلیں مستقبل میں پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں، جس سے نمٹنے کے لیے مستقل حل کی ضرورت ہے۔

واقعی میں یہ ایک حقیقت ہے کہ سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سامان کے ساتھ پلاسٹک بیگ اور پانی کی بوتلوں سے ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔

اس مسئلے کو کچھ حد تک حل کرنے کے لیے پنجاب حکومت سرگرم ہے اور صوبے میں کام کرنے والی صاف پانی اتھارٹی کے تحت ان علاقوں میں ہینڈ پمپ اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جا رہے ہیں، جو گندے پانی کو پینے کے قابل بناتے ہیں۔

اس اقدام سے پانی کی بوتلوں پر انحصار نہ صرف کافی حد تک کم ہو جائے گا بلکہ یہ پینے کے پانی کے فقدان کا مستقل حل بھی ثابت ہو گا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں لوگوں کی جانیں بچانا ترجیح ہے جبکہ بحالی کے دوسرے مرحلہ میں جو امداد آرہی ہے، اس میں سے مستقل واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کا کام ممکن ہے۔

پلاسٹک سے ماحولیاتی آلودگی کا خطرہ

موسمی تبدیلیوں اور ماحولیاتی آلودگی پر کام کرنے والے ماہر رافع عالم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اس حوالے سے کہا: ’پہلے مرحلے میں تو انسانی جانیں بچانا ضروری ہے، اس کے لیے کسی طریقے سے بھی امداد پہنچنی چاہیے۔ چاہے پلاسٹک بیگز اور پلاسٹک بوتلوں میں ہی جائے مگر جتنی بڑی تعداد میں ان علاقوں میں پلاسٹک بوتلیں اور شاپر جا رہے ہیں یہ یقینی طور پر ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنیں گے۔‘

رافع کے بقول: ’جس طرح موسمی تبدیلیوں سے سیلاب جیسی آفت میں شدت آرہی ہے اور آنے والے دنوں میں یہ خطرہ بڑھ رہا ہے اسی طرح ماحولیاتی آلودگی بھی خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے جو فی الحال سنائی نہیں دے رہی۔‘

پلاسٹک کی آلودگی سے بچاؤ اور حکومتی اقدامات

ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے حکومت پاکستان نے حالیہ برسوں میں پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی عائد کی تھی اور پلاسٹک کی اشیا کے کم از کم استعمال کی مہم بھی چلائی تھی۔

ان حکومتی اقدامات پر مکمل عمل درآمد تو نہیں ہوا البتہ کمی ضرور آئی۔

ان دنوں سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سامان کے ساتھ سب سے زیادہ پانی کی بوتلیں بھجوائی جارہی ہیں، جن سے آلودگی میں غیر معمولی اضافے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔

حکومت پنجاب کی جانب سے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے آب پاک اتھارٹی قائم کی گئی تھی، جو سیلاب زدگان کی امداد کے لیے بھی کوشاں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترجمان آب پاک اتھارٹی فرحان بیلا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پنجاب بھر میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگا کر شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے ایک ہزار واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائے جارہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ آب پاک اتھارٹی نے ایسے علاقوں کے لیے جدید ہینڈ پمپ بھی منگوائے ہیں، جہاں بجلی نہیں ہے۔

فرحان بیلا کے مطابق: ’ان 30 پمپوں میں سے 11 سیلاب زدہ علاقوں میں لگائے جارہے ہیں۔ یہ پمپ سیلاب کے پانی کو ٹریٹ کر کے پینے کے قابل بناتے ہیں، جس سے متاثرین کو پینے کا پانی اپنے کیمپوں میں ہی دستیاب ہو رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پلاسٹک کی بوتلیں لوگ اپنے طور پر پہنچا رہے ہیں، جو ہر فرد کو پانی پلانے کا آسان ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’جنوبی پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں میں مستقل بنیادوں پر بھی واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کی تیاری ہو رہی ہے اور جیسے ہی بحالی کا کام شروع ہوگا، ہم ان علاقوں میں مستقل پلانٹ لگانے کی بھی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔‘

ماحولیاتی آلودگی کے خطرات

معروف طبی جریدے ’دی لانسٹ‘ میں 2017 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق کئی دہائیوں سےآلودگی اور لوگوں کی صحت، ماحولیات اور کرہ ارض پر اس کے مضر اثرات کوحکومتوں اور بین الاقوامی ترقیاتی ایجنڈے دونوں نے نظرانداز کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں بیماریوں اور موت کی سب سے بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی بھی ہے، جو ایک اندازے کے مطابق 90 لاکھ قبل از وقت اموات کی ذمہ دار ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات