وہ سات ملک جو 100 فیصد بجلی قابلِ تجدید توانائی سے بناتے ہیں

شمسی توانائی ایک ’ناقابل واپسی مقام‘ پر پہنچ گئی ہے اور 2050 تک دنیا میں توانائی کا اہم ذریعہ بن جائے گی۔

چار جولائی 2023 کو لی گئی یہ فضائی تصویر مغربی جرمنی کی چھتوں پر لگے شمسی پینل کی ہیں، جہاں روہر کے علاقے میں 71 مکانات پر پہلی شمسی بستی تعمیر کی گئی تھی (اے ایف پی)

نئے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے سات ممالک ایسے ہیں جو اپنی تقریباً تمام بجلی قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع سے پیدا کرتے ہیں۔

البانیہ، بھوٹان، نیپال، پیراگوئے، آئس لینڈ، ایتھوپیا اور ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو نے استعمال ہونے والی بجلی کا 99.7 فیصد سے زیادہ حصہ جیوتھرمل، ہائیڈرو، شمسی یا ہوا سے پیدا کیا ہے۔

انٹرنیشنل انرجی ایجنسی (آئی ای اے) اور انٹرنیشنل رینیوایبل انرجی ایجنسی (آئی آر ای این اے)  کے اعداد و شمار سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ مزید 40 ممالک نے 2021 اور 2022 میں استعمال ہونے والی بجلی کا کم از کم 50 فیصد حصہ قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی سے پیدا کیا – جن میں 11 یورپی ممالک بھی شامل ہیں۔

یہ اعداد و شمار شائع کرنے والے سٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مارک جیکبسن کا کہنا ہے کہ ’ہمیں معجزاتی ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں ہے۔

’ہمیں ہر چیز کو بجلی پر منتقل کرکے اخراج روکنا اور ہوا، پانی اور شمسی (ڈبلیو ڈبلیو ایس) کے ساتھ بجلی فراہم کرنا چاہیے، جس میں ساحلی ہوا، شمسی فوٹو وولٹک، کنسنٹریٹڈ سولر پاور، جیوتھرمل بجلی، چھوٹے پیمانے پر تیارکردہ پن بجلی اور بڑے پیمانے پر تیار کردہ پن بجلی شامل ہیں۔‘

پروفیسر جیکبسن نے یہ بھی لکھا کہ جرمنی جیسے دیگر ممالک بھی مختصر مدت کے لیے 100 فیصد قابل تجدید توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

جنوری میں آئی ای اے کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ نے 2022 میں اپنی بجلی کا 41.5 فیصد حصہ قابلِ تجدید ذرائع سے پیدا کیا، جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں 10.5 فیصد زیادہ ہے۔

سکاٹ لینڈ میں قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی نے 2022 میں ملک کی مجموعی بجلی کی کھپت کے 113 فیصد کے مساوی پیداوار حاصل کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سکاٹش رینیوایبلز کی چیف ایگزیکٹیو کلیئر میک نے اس وقت کہا تھا کہ ’یہ ریکارڈ توڑ اعداد و شمار سکاٹ لینڈ کے نیٹ زیرو کی جانب سفر میں ایک اہم سنگ میل ہیں، جو ہمارے عالمی معیار کے قابلِ تجدید توانائی کے وسائل کی بے پناہ صلاحیت کو واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں۔‘

اگرچہ سکاٹ لینڈ کی بجلی کی پیداوار میں زیادہ حصہ ونڈ انرجی کا تھا، محققین نے پیش گوئی کی ہے کہ آنے والی دہائیوں میں بجلی کی فراہمی میں شمسی توانائی کا حصہ زیادہ ہو گا۔

حالیہ برسوں میں، پیرووسکائٹ کی بدولت سولر سیل کی کارکردگی میں بہت بہتری آئی ہے، جسے اکثر ’معجزاتی مواد‘ کہا جاتا ہے۔

اسی طرح تجارتی اخراجات میں بھی کمی آئی ہے، جس کی وجہ سے یونیورسٹی آف ایکسیٹر اور یونیورسٹی کالج لندن کے سائنس دانوں نے گذشتہ سال دعویٰ کیا تھا کہ شمسی توانائی ایک ’اِرریورس ایبل ٹپنگ پوائنٹ‘ (ناقابل واپسی مقام) پر پہنچ گئی ہے، جو 2050 تک دنیا میں توانائی کا اہم ذریعہ بن جائے گی۔

جرنل نیچر کمیونی کیشنز میں شائع ہونے والے ان کے 2023 کے مقالے میں پتہ چلا کہ تکنیکی اور معاشی ترقی کا مطلب ہے کہ صاف توانائی کی جانب منتقلی نہ صرف قابل رسائی ہے بلکہ ناگزیر ہے۔

محققین نے تحقیق میں لکھا کہ ’ماضی کی پالیسیوں کے ذریعے طے کردہ تکنیکی راستے کی وجہ سے، ایک عالمی اِرریورس ایبل سولر ٹپنگ پوائنٹ گزر گیا ہے، جہاں شمسی توانائی، آب و ہوا کی مزید کسی پالیسیوں کے بغیر، آہستہ آہستہ بجلی کی عالمی منڈیوں پر غلبہ حاصل کرنے لگی ہے۔

شمسی توانائی زمین پر سب سے زیادہ دستیاب توانائی کا ذریعہ ہے اور بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کی وجہ سے شمسی توانائی اقتصادی طور پر زیادہ پرکشش ہوتی جا رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات