سمندر میں پلاسٹک کی چٹانیں بن رہی ہیں: نئی تحقیق

سائنس دانوں کے مطابق سمندر میں موجود پلاسٹک گرمی کی وجہ سے پگھل کر چٹانوں کی شکل اختیار کر رہی ہے۔

سائنس دانوں نے برازیل کے جزیرے پر پلاسٹک کی چٹانیں دریافت کی ہیں (روئٹرز)

ماہرین ارضیات نے برازیل کے ٹرینیڈاڈ جزیرے پر پلاسٹک کی آلودگی سے وجود میں آنے والی چٹانوں کی ’خوفناک‘ دریافت کا انکشاف کیا ہے۔

کچھوؤں کی پناہ گاہ کے لیے مشہور اس دور دراز جزیرے پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے یہاں چٹانوں کے ساتھ جڑے ہوئے پلاسٹک کا مشاہدہ کیا جو ان کے بقول زمین کے ارضیاتی سائیکلز پر پلاسٹک کی آلودگی کے بڑھتے ہوئے اثرات کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی ہے۔

یہ جزیرہ برازیل کی جنوب مشرقی ریاست ایسپریتو سانتو سے ایک ہزار140 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ سبز سمندری کچھوؤں کا محفوظ علاقہ ہے جو یہاں انڈے دینے آتے ہیں۔

فیڈرل یونیورسٹی آف پیرانا سے وابستہ ماہر ارضیات فرنندا اویلر سانتوس نے اس حوالے سے بتایا: ’یہ ایک ہی وقت میں نیا اور خوفناک انکشاف ہے کیونکہ آلودگی نے ارضیات کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔‘

سانتوس نے مزید کہا کہ ’آلودگی، سمندر میں کوڑا کرکٹ اور سمندروں میں غلط طریقے سے پھینکا جانے والا پلاسٹک ارضیاتی مواد بنتا جا رہا ہے۔ اب یہ زمین کے ارضیاتی ریکارڈ میں محفوظ ہو چکا ہے۔‘

آتش فشاں پہاڑوں پر مشتمل برازیل کے ٹرینڈاڈ جزیرے کی ارضیاتی ساخت نے سائنس دانوں کو برسوں سے مسحور کر رکھا ہے۔ یہ جزیرہ زیادہ تر غیر آباد اور انسانی اثرات سے محفوظ تھا لیکن پلاسٹک کی آلودگی کی بڑھتی ہوئی مقدار نے یہاں بھی ڈیرہ جما لیا ہے۔

سینتوس نے اس بارے میں مزید بتاتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ یہ (پاسٹک کی آلودگی) بنیادی طور پر ماہی گیری کے جالوں سے یہاں آتی ہے جو ٹرینیڈاڈ جزیرے کے ساحلوں پر بہت عام ملبہ بن چکا ہے۔‘

ان کے بقول: ’جال سمندری لہروں کے ساتھ گھسیٹ کر ساحل پر جمع ہو جاتے ہیں۔ جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو یہ پلاسٹک پگھل جاتا ہے اور ساحل سمندر کے قدرتی مواد (جیسے چٹانوں) کے ساتھ سرایت کر جاتا ہے۔‘

ٹرینڈاڈ جزیرہ سبز کچھوؤں کے لیے دنیا کے سب سے اہم محفوظ مقامات میں سے ایک ہے جہاں ہر سال ہزاروں کچھوے انڈے دینے آتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹرینڈاڈ پر صرف برازیل کی بحریہ کے کچھ ارکان ہی آباد ہیں جو جزیرے پر ایک اڈے کا انتظام سنبھالتے ہیں۔ یہ اہلکار انڈے دینے والے کچھوؤں کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔

سینٹوس نے کہا کہ یہ ’خوفناک‘ دریافت کرہ ارض پر انسانوں کی میراث کے بارے میں سوالات کو جنم دیتی ہے۔

ان کے بقول: ’ہم انتھروپوسین (انسانی دور) کے بارے میں بہت زیادہ بات کرتے ہیں اور بس یہی ہے۔ وہ ایک ارضیاتی دور کا حوالہ دے رہے تھے جو ہمارے سیارے کی ارضیات اور ماحولیاتی نظام پر انسانوں کے اثرات کے بارے میں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آلودگی، سمندر میں کوڑا کرکٹ اور سمندروں میں غلط طریقے سے پھینکا جانے والا پلاسٹک ارضیاتی مواد بنتا جا رہا ہے۔ اور اب یہ زمین کے ارضیاتی ریکارڈ میں محفوظ ہے۔‘

ماحولیات کے حوالے سے غیر سرکاری تنظیم ’5 گیئرس انسٹی ٹیوٹ‘ کے نئے تجزیے کے مطابق دنیا کے سمندروں میں 1700 کھرب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے تیر رہے ہیں۔

ہر روز تقریباً 80 لاکھ پلاسٹک کے ٹکڑے سمندروں میں داخل ہوتے ہیں۔

ہر سال سمندروں میں جانے والے پلاسٹک کے ملبے کی مقدار 2040 تک تقریباً تین گنا ہونے کا خدشہ ہے اور اس وقت سمندر میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے موجود ہو سکتے ہیں۔

دریں اثنا 2022 OECD کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ 20 سالوں میں دنیا بھر میں پلاسٹک کی پیداوار دوگنی ہو گئی ہے جس میں صرف نو فیصد کو ہی کامیابی کے ساتھ ری سائیکل کیا گیا۔

نیوز ایجنسیوں کی جانب سے اضافی رپورٹنگ۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس