ماحولیاتی تبدیلی: خطرے کی گھنٹی

بدقسمتی سے پاکستان نے ماحولیاتی تبدیلی کو ابھی تک سنجیدگی سے نہیں لیا، مگر حالیہ سیلاب کی شدت ہماری بند آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔

2022  میں پاکستان میں آنے والے سیلاب متاثرین کا ایک بحالی کیمپ (اے ایف پی)

کہتے ہیں انسانوں کو دو چیزیں متحد کر دیتی ہیں، ایک مشترکہ مفاد اور دوسری مشترکہ خوف، لیکن اگر ان دونوں چیزوں سے بھی انسان متحد نہ ہوں تو یہ لمحۂ فکریہ ہے۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض انسانوں کی نظر میں خوف اور مفاد کی تشریح مختلف ہو۔ جیسے 2019 میں عالمی سطح پر نمودار ہونے والے کووڈ 19 وائرس کو سبھی نے اپنے لیے خطرہ اور اس سے بچاؤ کو فائدہ تسلیم کیا۔

اسی طرح طاعون، پولیو اور اس جیسے دوسرے جان لیوا امراض کے حوالے سے ابتدائی طور پر اس سے نظریں چرانے کے بعد جب اس کی ہولناکی کو براہِ راست اپنے دروازوں پر دستک دیتے ہوئے دیکھا تو سبھی اسے تسلیم کرتے ہوئے اس کے خاتمے کے لیے متحد ہو گئے۔

دور اندیشی انسانوں کو عطا کی جانے والی ایک ایسی صفت ہے، جس کے استعمال سے آنے والی مشکلات کا اندازہ اور اس سے بچاؤ یا اس کی شدت کو کم کرنے کی تاویل کی جا سکتی ہے۔ کئی سالوں سے دنیا بھر کے سائنس دان گلوبل وارمنگ یا ماحولیاتی تپش کے حوالے سے لوگوں کو خبردار کر رہے ہیں۔

ماحولیاتی تپش ایک اصطلاح ہے جو زمین کی آب و ہوا کے نظام کے اوسط درجہ حرارت اور اس کے متعلقہ اثرات میں ہونے والے اضافے کا مشاہدہ گذشتہ صدی سے کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے اور اسی ماحولیاتی تپش کی وجہ سے کئی ملکوں میں طوفان اور سیلابوں کی شدت میں اضافے، جنگلات میں خود بخود بھڑک اٹھنے والی آگ اور انتہائی درجہ حرارت سے لاکھوں لوگ اب تک لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر لوگوں نے ابھی تک اسے مشترکہ خطرہ اور اس سے بچاؤ کو اپنے لیے مشترکہ فائدہ تسلیم نہیں کیا۔

ہاں یہ الگ بات ہے کہ بہت سے ممالک نے انفرادی طور پر اسے سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس کے اسباب میں کمی کے لیے اپنے لوگوں میں آگاہی اور اس کے سدِ باب کے لیے ملکی قوانین میں تبدیلیوں کا آغاز کر دیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان نے اسے ابھی تک سنجیدگی سے نہیں لیا مگر ہمارے ملک میں اکثر اہم معاملات کو کہاں سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ خیر یہ تو جملۂ معترضہ ہے لیکن ملک میں حالیہ آنے والے سیلابوں کی شدت ہماری بند آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے جن میں ہزاروں جانوں کا زیاں ہوا اور املاک کے نقصان سے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا۔

یونی لیور کے سابقہ سی ای او پال پولمین کہتے ہیں: ’موسمیاتی تبدیلیوں کو بعض اوقات ہم موسم میں ہونے والی تبدیلیاں سمجھ بیٹھتے ہیں جبکہ درحقیقت یہ ہمارے طرزِ زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں ہے،‘ اور یہی وہ حقیقت ہے جسے ہمیں نہ صرف پہلے سمجھنا اور اس کے بعد کرۂ ارض پر ہونے والے مضر اثرات سے بچنے کی تدابیر کرنی ہیں۔

آب و ہوا اور موسمی اتار چڑھاؤ کے اعداد و شمار کے مطابق زمین کی سطح کا اوسط درجۂ حرارت پچھلی صدی کے دوران سے بڑھ رہا ہے، ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلی دہائی سب سے گرم رہی اور اس بڑھتی ہوئی گرمی کی اصل وجہ حیاتیاتی ایندھن مثلاً کوئلے اور تیل وغیرہ کا جلنا ہے، جو ماحول میں گرین گیسیں جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین چھوڑتا ہے اور یہ گیسیں گرمی کو کرۂ ارض پر بڑھانے کا سبب بنتی ہیں۔

اسی لیے امریکی کوہ پیما کونریڈ اینکر کا کہنا ہے کہ ’ہم موسمیاتی تبدیلیوں کو پسِ پشت نہیں ڈال سکتے، اگر ہم ان تبدیلیوں پر توجہ نہیں دے رہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اس زمین پر انسانوں کی طرح زندگی نہیں بسر کر رہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ آب و ہوا میں ہونے والی تبدیلیوں سے آنے والی آفات میں گرمی کی شدید لہر، خشک سالی، سیلاب، طوفان اور سمندر کی سطح میں اضافہ شامل ہو سکتا ہے۔ ان آفات سے جانی نقصان، بنیادی ڈھانچے کا صفحۂ ہستی سے مٹ جانا اور معیشت کی زبوں حالی سرِ فہرست ہیں۔

مثال کے طور پر گرمی کی شدید لہروں سے ہیٹ سٹروک اور گرمی سے متعلق دیگر بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ خشک سالی سے فصلوں اور پانی کی قلت ہوتی ہے، سیلاب گھروں اور کاروبار کو تباہ کر دیتا ہے۔ اسی طرح سطحِ سمندر میں اضافہ ساحلی کٹاؤ اور میٹھے پانی کے آبی ذخائر میں نمکین پانی کے شامل ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔

ایک گاؤں جہاں آبادی میں شدت سے اضافہ ہو رہا تھا اور وہ گاؤں وسائل کی کمی کا شکار تھا وہاں محکمۂ بہبودِ آبادی والوں نے لوگوں میں کم بچوں سے ہونے والے فائدے کو اجاگر کرنے کے لیے جگہ جگہ پوسٹر چپکائے، جس میں دکھایا گیا تھا کہ ایک پر آسائش صاف ستھرا گھر اور اس میں موجود میاں بیوی اپنے دو بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔

اس پوسٹر کو دیکھ کر گاؤں کی عورتوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر پرتاسف انداز میں کہا: ’ہائے بہن ذرا دیکھنا، کتنے بدنصیب ہیں یہ، ان بیچاروں کے صرف دو ہی بچے ہیں۔‘

یعنی اگر ہم نے بھی اپنی پرانی روش کو ترک نہ کیا اور ان گاؤں والوں کی طرح پر آسائش صاف ستھرے گھر کو نظر انداز کر دیا تو اللہ نہ کرے ہمیں بھی ان آفات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور یہی وہ خطرے کی گھنٹی ہے جو عالمگیر سطح پر مستقل بجے جا رہی ہے اور اب بھی بہت سے ممالک ایسے ہیں جو اپنے کانوں میں پڑی روئی نکال کر اسے سننے کو تیار نہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر