ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس اور پاکستان کی امیدیں

ہم اس سال کے سیلاب کا مقابلہ کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار تو نہ تھے مگر حکومت نے سیلاب کی تباہ کاریوں کو موثر طریقے سے ماحولیاتی تبدیلیوں سے جوڑ کر اقوام عالم کو اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کیا ہے۔

سندھ کے ضلع جام شورو میں 28 ستمبر 2022 کو سیلاب سے متاثرین افراد ایک عارضی کیمپ  میں مقیم ہیں (اے ایف پی)

یہ تحریر آپ کالم نگار کی زبانی یہاں سن بھی سکتے ہیں:

پاکستان میں حالیہ قیامت خیز سیلاب نے موسمی تبدیلی کی شدت اور اس سے جڑی ممکنہ قدرتی تباہیوں کو واضح طور پر دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔

پاکستان سیلاب اور مون سون کی شدید بارشوں سے تو آشنا ہے مگر اس سال کا سیلاب قیامت خیز نوعیت کا تھا، جس نے پاکستان کے ایک تہائی حصے کو متاثر کیا اور تقریباً 150 کلومیٹر بڑی جھیل کی شکل اختیار کر لی۔ بارشوں کا حجم صرف سندھ میں 28 انچ کے قریب تھا جو پچھلے 30 سالوں کی اوسط سے چھ گنا زیادہ تھا۔ اسی طرح بلوچستان، جو عموماً مون سون بارشوں سے زیادہ متاثر نہیں ہوتا تھا، وہاں بھی اس کی سالانہ اوسط بارش سے پانچ گنا زیادہ بارش ہوئی۔

اس سیلاب نے پاکستان کے ہر سات میں سے ایک شخص کو متاثر کیا اور تقریباً تین کروڑ 30 لاکھ لوگوں کو گھر چھوڑنے پر مجبور کیا۔ اس قیامت خیز سیلاب نے پاکستانی معیشت کو ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 40 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا جس میں فصلوں، املاک کی تباہی اور مواصلات کے ذرائع کو شدید نقصان شامل ہیں۔

سیلاب متاثرین کا جانی اور مالی نقصان اس کے علاوہ ہے اور ایک تحقیق کے مطابق تقریباً دس لاکھ گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنا پڑے گا۔ سیلاب کے ساتھ افراطِ زر میں بھی شدید اضافہ ہوا کیونکہ سیلاب میں فصلیں بھی بہہ گئیں۔ کھڑے پانی کی وجہ سے آنے والی فصلوں خصوصاً گندم کی بوائی بھی شدید متاثر ہوئی۔

پاکستان میں مون سون میں ہمیشہ کافی بارشیں ہوتی ہیں مگر اس دفعہ شدید، لمبے اور غیر معمولی مون سون کی وجہ ماہرین کی نظر میں موسمیاتی تبدیلی ہے۔ پاکستان میں ماحولیاتی پامالی کی وجہ سے کافی غیر معمولی موسمی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، جس میں بڑی وجوہات جنگلات کا کٹاؤ، شہری آبادیوں میں بے ہنگم اضافہ، گاڑیوں سے آلودگی کا اخراج اور موسم دوست پالیسیوں سے انحراف شامل ہیں۔ ہمارے فیصلہ سازوں کا اس سنجیدہ اور گمبھیر مسئلے سے صرف نظر ماحولیاتی مسائل میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

ہمارے مقابلے میں بنگلہ دیش نے ان مسائل کا قدرے بہتر طریقے سے مقابلہ کیا ہے۔ بنگلہ دیش نے سیلاب سے بچاؤ کے لیے بہت بڑی سرمایہ کاری کی اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو ان کوششوں میں ساتھ شامل کیا۔ حکومتی کوششوں کی وجہ سے 2020 کے شدید سیلاب میں صرف 30 جانوں کا نقصان ہوا جبکہ 1970 میں اسی پیمانے کے سیلاب میں تین سے پانچ لاکھ لوگوں کی اموات ہوئیں۔

ہمیں بنگلہ دیش ماڈل کو قریب سے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے ہاں بھی سیلاب کی تباہ کاریوں کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم اس سال کے سیلاب کا مقابلہ کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار تو نہ تھے مگر حکومت نے سیلاب کی تباہ کاریوں کو موثر طریقے سے موسمی تبدیلیوں سے جوڑ کر اقوام عالم کو اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا سیلاب کے فوراً بعد پاکستان کا دورہ بھی کافی مدد گار ثابت ہوا۔

وزیراعظم کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس مسئلے کو بھرپور طریقے سے اٹھانے سے اور مغربی ممالک کو اس تباہی کا ذمہ دار قرار دینے سے ایک نئی تحریک کی ابتدا شروع ہوئی ہے جس میں مغربی ممالک سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ چونکہ وہ اس قیامت خیز موسمی تبدیلی کے ذمہ دار ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ ان غریب ممالک، جن کا اس عمل میں کوئی قصور نہیں، کو اس کا مناسب معاوضہ ادا کریں تاکہ وہ اپنے ممالک میں اس تبدیلی کا مقابلہ کرسکیں اور تعمیر نو کا آغاز کر سکیں۔

یہ مطالبہ مصر میں ہونے والی حالیہ موسمی تبدیلی کی کانفرنس  (کوپ 27) میں بھی زور دار طریقے سے اٹھایا گیا ہے۔ ایک لمبے عرصے کے بعد پاکستان ایک عالمی مسئلہ میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے اور ترقی پذیر ممالک کی موسمی تبدیلی کے خلاف جنگ اور معاوضے کے مطالبے میں قیادت کر رہا ہے۔ پاکستان اس وقت جی 77 کے گروپ کی صدارت کر رہا ہے اور وزیراعظم مصر میں حالیہ موسمی تبدیلی کی کانفرنس کے نائب صدر بھی رہے۔

پاکستان نے اس کانفرنس کے شروع ہونے سے پہلے ہی کامیاب سفارت کاری کے ذریعے موسمی تبدیلی سے نقصانات اور معاوضے کا مسئلہ کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل کروایا جس میں ترقی یافتہ ممالک پر دباؤ ڈالا جائے گا کہ چونکہ یہ خود اس موسمی تبدیلی اور تباہی کے ذمہ دار ہیں تو وہ متاثرہ ممالک کی مدد کریں اور انہیں موسمی تبدیلی کے نقصانات کا معاوضہ ادا کریں۔ جیسا کہ پاکستان کا موسمی تبدیلی میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ہے مگر اسے اس تبدیلی سے شدید قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

امکانات ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اس مطالبے کی مزاحمت کریں گے کیونکہ ایسے مطالبوں کا انہیں باقاعدگی سے ہر قدرتی آفت کے بعد سامنا کرنا پڑے گا اور ان مطالبات میں بتدریج اضافہ ہوتا جائے گا۔ لیکن امید کی جاتی ہے کہ مصر میں ہونے والی کانفرنس کے ذریعے ترقی یافتہ ممالک پر دباؤ بڑھے گا اور موسمی تبدیلی سے پیدا ہونے والی صورت حال کا سنجیدگی سے مقابلہ کرنے کے لیے جامع حکمت عملی تیار کی جائے گی اور ترقی پذیر ممالک کو ان کے نقصانات کا مناسب معاوضہ ادا کیا جائے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ