پاکستان نے حالیہ سیلاب کے بعد ہونے والی تباہی کے بارے میں دنیا کو مختلف طریقوں اور ذرائع سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔
اس سیلاب کے بارے میں جس میں ملک کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا۔
33 ملین لوگ متاثر ہوئے اور ایک ہزار سے زیادہ کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔
حکومت پاکستان نے نقصانات کا جو تخمینہ لگایا ہے اس کے مطابق کل نقصان تقریبأ 30.1 ارب ڈالرز کا ہے۔
ان 30.1 ارب ڈالرز میں 14.9 ارب ڈالرز تعمیر نو اور 15.2 ارب ڈالر کا معاشی نقصان پاکستان کو ہوا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ ایسا سیلاب نہیں کہ جس سے زمینوں کو کوئی فائدہ ہو بلکہ خدشہ یہ کیا جارہا ہے کہ اگلے چھ ماہ تک یہ زمینیں کاشت کے قابل نہیں ہوں گی۔
یہی وجہ تھی کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو بھی کہنا پڑا موسمیاتی تبدیلی کے باعث اتنی بڑی تباہی آج تک نہیں دیکھی۔ انتونیو گوٹیرس نے اس موسمیاتی بحران کو ’انسانیت کے لیے کوڈ ریڈ‘ بھی قرار دیا۔
کاشت تو ایک طرف امریکہ اور یورپ میں صارفین کے لیے بیڈ شیٹس سے لے کر تولیے تک کی مصنوعات تیار کرنے والی پاکستان کی چھوٹی ٹیکسٹائل ملیں بھی کپاس کی فصل تباہ ہونے کے بعد بند ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ خرم مختار کہتے ہیں کہ 100 سے زیادہ چھوٹی ملوں نے معیاری کپاس کی کمی، ایندھن کی زیادہ قیمتوں اور سیلاب زدہ علاقوں میں خریداروں سے وصولیوں میں دشواری پر کام کرنا معطل کر دیا ہے۔
ملوں کی بندش نہ صرف اس شعبے بلکہ پاکستان کی معیشت پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں جہاں تقریباً 10 ملین افراد ملازمت کرتے ہیں، جو کہ معیشت کا آٹھ فیصد ہیں اور ملک کی آمدن میں نصف سے زیادہ کا اضافہ کرتے ہیں۔
یہ تباہی اور نقصانات جو پاکستان کو جھیلنا پڑے، اس کی وجہ کیا تھی اور پاکستان کا کیا قصور تھا؟
پاکستان کی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک جو کاربن کے اخراج کو پھیلانے میں سب سے آگے ہیں، انہیں پاکستان کی ہر ممکن مدد کرنا چاہیے کیوں کہ پاکستان تاریخ کے بد ترین سیلاب سے دوچار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’امیر آلودگی پھیلانے والے ممالک جو کہ ڈسٹوپیئن موسمیاتی خرابی کے لیے بنیادی طور پر ذمہ دار ہیں، نے اخراج کو کم کرنے اور ترقی پذیر ممالک کو گلوبل ہیٹنگ کے مطابق ڈھالنے میں مدد کرنے کے اپنے وعدے توڑ دیے ہیں۔‘
پاکستان انوائرمنٹ ٹرسٹ کے مطابق کاربن کے اثرات کو 2030 تک صفر کرنے کے لیے اور پاکستان میں کپاس کی فصل کی تباہی کے نتیجے میں اور عالمی برادری کی سپلائی چین میں رہ جانے والی کمی کو پورا کرنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک کی کارپوریشنز اور صنعت کاروں کو مل کر پاکستان میں کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ایسا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پاکستان سے کاربن کریڈٹ خریدا جائے تاکہ فطرت پر مبنی حل میں سرمایہ کاری کی جا سکے اور ان کے کاربن فوٹ پرنٹ کو کم کیا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دنیا بھر میں کاربن کے اخراج کو اگر دیکھیں تو پاکستان کل عالمی کاربن اخراج میں صرف ایک فیصد حصہ ڈالتا ہے، اس کے برعکس چین دنیا کے کاربن اخراج میں 32 جبکہ امریکہ 12.6 فیصد حصہ ڈالتا ہے، جسے ہم سادہ زبان میں کاربن فٹ پرنٹ کہتے ہیں۔
اپنے کاربن فٹ پرنٹ کو کم کرنے کے لیے ان ممالک کو صنعتی اخراج کم کرنے کی ضرورت ہے۔
ایسا کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے کاربن اخراج سے شدید متاثرہ ممالک جیسے کہ پاکستان میں ان ممالک کو کاربن کریڈٹ خریدنا چاہیے۔ ایسی انڈسٹریزجیسے کہ سیمینٹ، ایوی ایشن، سٹیل اور گیس کے کاربن فٹ پرنٹس سب زیادہ ہیں یعنی یہ کمپنیاں ماحولیاتی آلودگی میں سب سے زیادہ ملوث ہیں، تو انہیں کاربن کریڈٹ فراہم کرنا ہوگا اور یہاں پاکستان میں پھر ان پیسوں سے ترقیاتی منصوبے بنائے جائیں جیسے کہ ڈی آئی خان اور چترال میں جنگلات کے منصوبے اور کے پی میں ہائیڈرو گرڈز لگانا۔
اس سال پاکستان بھی COP27 کانفرنس میں اہم سٹیک ہولڈر ہوگا۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کو اس کانفرنس کا نائب صدر نامزد کیا گیا ہے۔