یہودی ٹوپی کیبا کا تنازع غلط فہمی سے پیدا ہوا: سعودی سفارت خانہ

سفارت خانے کی ویب سائٹ پر جاری تحریری بیان میں بتایا گیا کہ ’معاملہ حل ہو گیا لیکن ہم دورہ جاری نہ رکھنے کے ان کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ ہم سلطنت میں ان کے دوبارہ استقبال کے منتظر ہیں۔‘

ایک شخص مغربی جرمنی میں یہودیوں کی عبادت گاہ کے باہر 14 مئی 2021 کو ایک مظاہرے میں یہودی ٹوپی کیبا پہنے شریک ہے (اے ایف پی)

واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفارت خانے نے ایک ’غلط فہمی‘ کو اس واقعے کی وجہ قرار دیا ہے جس میں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کے ایک رکن سے کیبا (یہودیوں کی روایتی ٹوپی) اتارنے کو کہا گیا تھا۔

سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم ایک حالیہ واقعے کی درج ذیل وضاحت کرنا چاہتے ہیں، جس میں سعودی عرب کے دورے پر آئے ہوئے وفد کے ایک رکن - ربی ابراہم کوپر کو درعیہ گیٹ میں داخلے سے منع کیا گیا تھا، یہ افسوسناک واقعہ داخلی پروٹوکول کی غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ’معاملہ اعلیٰ حکام تک پہنچایا گیا اور سفیر کو ربی سے بات کرنے کا موقع بھی ملا۔‘

سفارت خانے کی ویب سائٹ پر جاری تحریری بیان میں بتایا گیا کہ ’معاملہ حل ہو گیا لیکن ہم دورہ جاری نہ رکھنے کے ان کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ ہم سلطنت میں ان کے دوبارہ استقبال کے منتظر ہیں۔‘

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے گذشتہ روز کہا تھا کہ ان کا وفد ریاض کے قریب یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل تاریخی قصبے درعیہ کا دورہ کر رہا تھا جب کمیشن کے سربراہ کٹر ربی ابراہم کوپر نے ’ان کی جانب سے کی گئی سر سے ٹوپی اتارنے کی درخواستیں مسترد کر دیں۔‘

کوپر نے ایک بیان میں کہا کہ ’کسی کو بھی ثقافتی ورثے تک رسائی سے منع نہیں کیا جانا چاہیے، بالخصوص اس کو جس کا مقصد اتحاد اور بہتری کو اجاگر کرنا ہے، صرف اس وجہ سے کہ کسی شخص کی شناخت یہودی کے طور پر ہوتی ہے۔‘

یو ایس سی آئی آر ایف کا کہنا ہے کہ کوپر اور ان کے نائب صدر ریورنڈ فریڈرک ڈیوی کو گذشتہ منگل کو ان کے سرکاری دورے کے حصے کے طور پر سائٹ کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔

دورے میں کئی تاخیروں کے بعد، حکام نے درخواست کی تھی کہ کوپر ’سائٹ پر رہتے ہوئے اور جب بھی وہ عوام کے سامنے موجود ہوں، اپنی کیبا ہٹا دیں، حالانکہ سعودی وزارت خارجہ نے سائٹ کے دورے کی منظوری دے دی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کوپر نے کہا کہ سعودی عرب میں ’اپنے 2030 وژن کے تحت حوصلہ افزا تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ تاہم، خاص طور پر اس وقت جب یہود دشمنی میں اضافہ ہو رہا ہے، مجھے اپنی کیبا اتارنے کو کہا گیا، جس کی وجہ سے ہمارے لیے یو ایس سی آئی آر ایف کی جانب سے اپنا دورہ جاری رکھنا ناممکن ہو گیا۔‘

یو ایس سی آئی آر ایف نے کہا کہ یہ بالخصوص افسوس ناک ہے کہ ’مذہبی آزادی کو فروغ دینے والی ایک امریکی سرکاری ایجنسی‘ کے نمائندے کے ساتھ ایسا ہوا۔

اس واقعے کے بعد وفد نے سعودی عرب کا اپنا دورہ مختصر کر دیا تھا۔

یہ کمیشن امریکی حکومت کا ایک مشاورتی ادارہ ہے جسے امریکی کانگریس کا مینڈیٹ حاصل ہے۔

یو ایس سی آئی آر ایف کے وائس چیئرمین ڈیوی نے اس واقعے کو ’حیرت انگیز اور تکلیف دہ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ نہ صرف حکومت کے تبدیلی کے سرکاری بیانیے کے برعکس ہے بلکہ مملکت میں زیادہ سے زیادہ مذہبی آزادی کے حقیقی اشارے بھی ہیں جن کا ہم نے براہ راست مشاہدہ کیا۔‘

یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب غزہ کی جنگ پر سعودی عرب اور امریکی اتحادی اسرائیل کے درمیان کشیدگی ہے اور تنازع ختم ہونے کے بعد دونوں ریاستوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے امریکی کوششیں جاری ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا