جان خطرے میں ڈال کر سونا تلاش کرنے والے افغانوں کی کہانی

شمال مشرقی افغانستان کے پتھریلے پہاڑوں سے سونا تلاش کرنے کے لیے کھدائی میں مصروف مزدروں کا کہنا ہے کہ وہ قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ان کے پاس اس کام کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔

پھپھوندی لگی روٹی کا ٹکڑا توڑ کر ہمایوں نے چائے کا ایک گھونٹ بھرا اور مشینوں اور اوزاروں کے شور کے دوران تھوڑا سا وقفہ لیا۔ وہ اپنے ایک درجن دیگر ساتھیوں کے ہمراہ شمال مشرقی افغانستان میں ایک پتھریلے پہاڑ سے سونا تلاش کرنے کے لیے کھدائی میں مصروف تھے۔

30 سالہ ہمایوں قریبی شہر فیض آباد شہر میں بطور مکینک کام کرتے تھے، لیکن کام نہ ہونے کے باعث انہوں نے دوسرے بے روزگار مردوں کے ساتھ مل کر اپنی قسمت آزمانے کے لیے صوبے بدخشاں کے ان پہاڑوں کا رخ کیا۔

ہمایوں نے اے ایف پی کو بتایا: ’ہم میں سے پانچ، چھ لوگ بے روزگار تھے۔ ہم یہاں یہ دیکھنے کے لیے آئے تھے کہ کیا ہمیں (یہاں) کچھ ملتا ہے۔‘

چار سرنگوں کی کھدائی کے دوران یہ لوگ ایندھن، اوزاروں اور مزدوری پر پیسہ خرچ کر چکے ہیں لیکن ان کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

ہمایوں نے بتایا کہ علاقے کی دیگر کانیں نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہیں (یعنی وہاں سے سونے کے آثار ملے ہیں)، اس لیے وہ کھدائی کرتے رہے۔

ان کے ساتھی کان کن قادر خان نے خبردار کیا کہ اس کے بہت زیادہ نقصانات ہو سکتے ہیں۔

بقول قادر: ’ایسے لوگ بھی ہیں جو قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ان کانوں سے کچھ بھی نہیں ڈھونڈ پائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’انہیں دو سے تین لاکھ افغانی (تقریباً 2800 سے 4200 ڈالر) کا نقصان ہوا ہے اور ان کے پاس کوئی دوسرا کام تلاش کرنے، پیسہ کمانے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے واپس آنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔‘

پتھروں کے ڈھیر کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑتے ہوئے قادر خان 74 سال کے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس کام جاری رکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

2021 میں افغان طالبان کے ملک پر کنٹرول کے بعد سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ دو دہائیوں پر محیط جنگ کا تو بظاہر خاتمہ ہوا ہے لیکن عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی نصف آبادی اب بھی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔

ایک 60 سالہ مزدور شریف نے بتایا کہ وہ مویشی پالتے تھے لیکن پچھلے ایک سال سے کان کنی کر رہے ہیں جبکہ ان کے دو بیٹے کام کی تلاش میں ایران جا چکے ہیں۔

انہوں نے پانی کی کمی کی شکایت کرتے ہوئے مزید بتایا: ’ہم اب بھی کھیتی باڑی کر رہے ہیں، لیکن یہ کام پہلے جیسا نہیں ہے۔‘

شریف اور دیگر مزدور ان چٹانوں سے نکالے گئے پتھروں کو پاؤڈر کی طرح پیستے ہیں، جس کے بعد دریائے کوکچا کے کنارے یہ مزدور عارضی بالٹیوں کی مدد سے پاؤڈر کے ڈھیروں پر پانی ڈالتے ہیں اور اس کے بعد اسے چھان لیا جاتا ہے۔

پہلی دھلائی سے حاصل ہونے والی آمدنی کو کان کنی اور مزدوری میں استعمال ہونے والے سامان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دوسری اور تیسری دھلائی سے حاصل ہونے والی آمدنی کو اس کام کو جاری رکھنے کے لیے پیسہ لگانے والوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔

ہمایوں نے بتایا کہ فروری کے آخر تک، 4.5 گرام سونا 18 ہزار افغانی (تقریباً 250 ڈالر) میں فروخت کیا جا سکتا تھا۔

عالمی سطح پر سونے کی قیمت پانچ مارچ کو 2,141.79 ڈالر فی اونس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔

لیکن اگر یہ کان کن اچھی مقدار میں سونا اکٹھا کر بھی لیں، تب بھی آمدنی کا پانچواں حصہ طالبان حکام کو جائے گا۔

دوسری جانب پہاڑوں کی گہرائی میں اترتے ہوئے ان کان کنوں کو نہ صرف قرض بلکہ موت کا بھی خطرہ ہے کیونکہ کانوں کے منہدم ہونے کے واقعات افغانستان میں عام ہیں۔

دریائے کوکچہ پر کان کنوں نے بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں اپنے دوستوں کو کھو دیا ہے۔ مقامی میڈیا نے رواں ماہ کے آغاز میں رپورٹ کیا تھا کہ پڑوسی صوبے تخار میں ایک کان کا ایک حصہ منہدم ہونے سے کان کن کی موت ہو گئی تھی۔

اسی طرح 2019 میں بدخشاں میں سونے کی ایک کان منہدم ہونے سے کم از کم 30 افراد چل بسے تھے۔

ان تمام خطرات کے باوجود بھی یہ مزدور کھدائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ہمایوں نے بتایا: ’اب تک ہمیں زیادہ کچھ نہیں ملا، لیکن ہمیں امید ہے، ہمیں خدا پر بھروسہ ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا