غزہ کے ایک تاجر نے انتہائی ہلکے سونے کے سکے تیار کیے ہیں تاکہ زیادہ رقم کے بغیر لوگوں کو مشرق وسطیٰ میں بچت کے سب سے مقبول طریقوں میں سے ایک تک رسائی حاصل ہو سکے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق احمد حمدان کے تیار کردہ سکوں کا وزن نصف گرام سے لے کر 10 گرام تک ہے۔ ان کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ’انہیں یہ خیال مشکل حالات میں زندگی بسر کرنے والی اپنی کمیونٹی کے لیے سونا رکھنے کی ضرورت کے پیش نظر آیا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہم نے ہر طبقے کے لوگوں کے لیے سونا دستیاب کر دیا ہے۔ وہ سونا جس سے غریب اور کم آمدنی والے بھی حاصل کر سکتے ہیں۔‘
21 قیراط سونے کا سکہ، جس کی ایک جانب مسجد اقصیٰ کے گنبد کی تصویر ہے جس کے نیچے فلسطین تحریر ہے۔ اس پر غزہ کی وزارت خزانہ کی مہر بھی کندہ ہے۔
تاہم غزہ کی وزارت خزانہ میں پالیسی شعبے کے سربراہ اسامہ نوفل نے زور دیا کہ اس سکے قانونی حیثیت نہیں ہے۔
ان کے بقول: ’اس کی تشریح اس طرح نہیں کی جانی چاہیے کہ یہ مستقبل کی کرنسی ہے۔ یہ بچت کے ایک ذریعے کے علاؤہ کچھ نہیں ہے۔‘
فلسطینیوں کی اپنی کوئی کرنسی نہیں ہے اور وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں یورو، امریکی ڈالر، اسرائیلی شیکل اور اردنی دینار استعمال کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جیسا کہ مشرق وسطیٰ کے متعدد حصوں میں بینکوں پر عدم اعتماد کا مطلب ہے کہ بہت سے لوگ اپنی بچت کو سونے میں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
غزہ میں 23 لاکھ فلسطینی آباد ہیں اور ان میں سے تقریباً نصف بے روزگار ہیں۔
سکیورٹی کے پیش نظر اسرائیل اور مصر دونوں نے اپنی سرحدوں پر اس علاقے کے ساتھ پابندیاں برقرار رکھی ہوئی ہیں۔
عادل الرفاتی نامی ایک سرکاری ملازم نے پچھلے تین مہینوں میں 3.5 گرام سونا خریدا اور وہ اپنی نئی بچت سے خوش ہیں۔
انہوں نے روئٹرز کو بتایا: ’میں بھاری سونا نہیں خرید سکتا لیکن اسے کم گرام میں حاصل کرنا آسان ہے۔ میں اس سے بچت کر سکتا ہوں کیونکہ سونا دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں ایک محفوظ ہے۔‘