سکردو شہر سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر کچورا اور بشو میں دریائے سندھ کے کنارے مختلف مقامات پر خیمہ بستیوں میں رہائش پذیر لوگ اپنی روزی کمانے کے لیے صبح سے شام تک سونا تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔
پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہ وہ جملہ ہے جو ہمیشہ سننے کو ملتا ہے لیکن اس کو اپنی آنکھوں سے اس وقت دیکھا جب گلگت بلتستان کے علاقے چلاس سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں پر نظر پڑی جو اپنے بچوں کے ہمراہ دریائے سندھ کے کنارے ریت اور بجری سے سونا نکال رہے تھے۔
بہتے دریا کے کنارے خیمہ بستیوں میں اپنے بچوں سمت آباد ان لوگوں کا روزگار ہی یہی ہے۔ سال بھر یہ قبیلہ موسم سرما کا انتظار کرتا ہے اور نومبر، دسمبر کے مہینے آتے ہی ان سونا نکالنے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے۔
وجہ یہ ہے کہ موسم سرما میں دریاؤں میں پانی کی سطح کم ہو جاتی ہے تو ان کے لیے ریت چھان کر سونا نکالنا آسان ہو جاتا ہے۔ پھر مئی، جون میں جب پانی کی سطح اوپر آ جائے تو یہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مٹی اور ریت سے سونا نکالنے کے لیے یہ لوگ ایک مخصوص مقام سے مٹی اٹھاتے ہیں اور پھر اس کو چھلنی کے ذریعے چھانتے ہیں۔ پھر اسے دریا کے پانی کے ذریعے ایک عمل سے گزارا جاتا ہے جس کے بعد اس میں صرف چند ذرات رہ جاتے ہیں اور یہ ذرات سونے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
انہی لوگوں میں ایک سمندر خان بھی ہیں جن کے آباؤ اجداد یہ کام کرتے چلے آ رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سونا تلاش کرنے کے لیے انہیں تین سے چار ماہ ملتے ہیں، جس کے بعد دریا کا پانی اوپر آ جاتا ہے اور پھر یہ لوگ کام نہیں کر سکتے ہیں۔
سمندر خان کے خاندان کے افراد سونا تلاش کرنے کے لیے صبح سویرے خیموں سے نکلتے ہیں اور شام کو واپس لوٹتے ہیں۔
دریا سے سونا تلاش کرنے کے بعد اسے مقامی ٹھیکیداروں کو فروخت کر دیا جاتا ہے جو اسے آگے مارکیٹوں میں لے جاتے ہیں۔
سونا نکالنے والے ان افراد کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ٹھیکیدار یہ سونا آگے کس قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ انہیں اگر یہ معلوم ہو بھی جائے کہ انہیں ملنے والی سونے کی قیمت مارکیٹ سے کم ہے تب بھی انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ یہ سونا لوکل ٹھیکیدار کو ہی بہ خوشی ہر جمعہ کے دن فروخت کرتے ہیں۔
لیکن اگر انہیں کوئی شکوہ ہے تو وہ یہ ہے کہ انہیں یہ سب کام پرانے اور روایتی طریقوں سے کرنا پڑتا ہے۔
ریت اور مٹی میں سونا تو ہے مگر کسی جگہ زیادہ ملتا ہے تو کہیں سے ہوتا ہی نہیں ہے۔ جگہ کا تعین کرنے کے لیے مختلف لیکن روایتی اوزاروں سے یہ سونا نکالا جاتا ہے۔
ان کے گھر کے تقریباً چھ سے سات افراد روزانہ صبح سے شام تک دریا کے کنارے مختلف مقامات پر سونا تلاش کرتے ہیں مگر ان کے لیے یہ ایک ایسی روزی ہے جو کبھی پانچ ہزار، کبھی تین ہزار تو کبھی قسمت زیادہ مہربان ہو تو 15 ہزار بھی مل جاتے ہیں۔