جے یو آئی کے سابق رہنما حافظ گل بہادر شدت پسند کمانڈر کیسے بنے؟

شمالی وزیرستان کے وزیر قبیلے کے اتمانزئی کی ذیلی شاخ مداخیل سے تعلق رکھنے والے حافظ گل بہادر پاکستان، افغان سرحد کے قریب مداخیل گاؤں سے ہیں اور 2000 میں وہ جمیعت علمائے اسلام کے طلبہ تنظیم کے سرگرم رکن تھے۔

پاکستانی طالبان کی یہ تصویر 26 نومبر 2008 کو اس وقت کی اورکزئی ایجنسی میں لی گئی تھی (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

امریکہ میں نائن الیون کے حملوں سے تقریباً ایک ماہ قبل پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں پر اقوام متحدہ کی جانب سے مانیٹزز تعینات کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا تاکہ شدت پسندوں کو اسلحہ کے سپلائی روکی جا سکے۔

کریٹیکل تھریٹ نامی تنظیم کے مطابق اسی دوران شمالی وزیرستان میں جمیعت علمائے اسلام کے ایک رہنما کی جانب سے چار ہزار رضاکاروں پر مشتمل ایک مقامی لشکر تشکیل دیا گیا تاکہ ان مانیٹرز کی تعیناتی کو روکا جائے۔

اس لشکر کی سرپرستی کرنے والے حافظ گل بہادر تھے جو اس وقت پہلی مرتبہ توجہ کا مرکز بنے تھے۔ اس وقت حافط گل بہادر کا موقف تھا کہ مانیٹرز کی تعیناتی سے پشتونوں کی افغانستان کے ’جہاد‘ میں حصہ لینے میں مداخلت پیدا ہوگی۔

یہ وہی حافظ گل بہادر ہیں جن کے گروپ کے شدت پسندوں کے خلاف پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق 18 مارچ 2024 کو افغانستان میں پاکستانی فوج نے ’انٹیلجنس بیسڈ‘ آپریشن کیا۔

پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق حافظ گل بہادر گروپ کے شدت پسند پاکستان میں حملوں میں ملوث ہیں۔

ابتدائی زندگی

شمالی وزیرستان کے وزیر قبیلے کے اتمانزئی کی ذیلی شاخ مداخیل سے تعلق رکھنے والے حافظ گل بہادر پاکستان، افغان سرحد کے قریب مداخیل گاؤں سے ہیں اور 2000 میں وہ جمیعت علمائے اسلام کے طلبہ تنظیم کے سرگرم رکن تھے۔

کریٹیکل تھریٹ نامی تنظیم پر شائع حافظ گل بہادر کی زندگی پر مبنی تحقیق کے مطابق وہ اتمانزئی قبیلے کے بااثر مشر تھے اور مختف معاملات میں لوگوں کے آپس میں جرگوں میں صلح بھی کرواتے تھے۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم ملتان کے ایک دیوبند مدرسے سے حاصل کی اور 90 کی دہائی میں افغان سول وار میں حصہ بھی لے چکے ہیں، جب افغانستان میں افغان طالبان بنے اور انہوں نے 1994 میں افغانستان میں حکومت بنائی۔

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی رسول داوڑ، جو ٹی ٹی پی کے مختلف رہنماؤں کے انٹرویوز کر چکے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حافظ گل بہادر ابتدا ہی سے منظرعام پر بہت کم آتے تھے اور میڈیا سے بات بھی نہیں کرتے تھے۔

رسول داوڑ بتاتے ہیں کہ ’2008 میں حافظ گل بہادر نے شمالی وزیرستان میں مغربی میڈیا کے صحافیوں کے کام کرنے پر پابندی لگا دی تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مغربی میڈیا میں کام کرنے والے صحافی صحافت کی آڑ میں جاسوسی کرتے ہیں۔‘

حافظ گل بہادر کے ساتھی مولوی صادق نور نے 2006 میں شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ میں میوزک سی ڈی کیسٹس اور حجاموں کے داڑھی منڈنے پر پابندی بھی لگائی تھی جبکہ اس وقت علاقے کے لوگوں پر ’شرعی ٹیکس‘ بھی نافذ کیا گیا تھا۔

حافظ گل بہادر کا حکومت کے ساتھ 2006 میں امن معاہدہ

پاکستانی حکومت نے 2004 میں شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف پہلا آپریشن کا آغاز کیا اور دو سال بعد 2006 میں حکومت نے حافظ گل بہادر کے ساتھ امن معاہدہ کیا۔ معاہدے کی بنیادی شق شمالی وزیرستان سے غیر ملکی ’جہادی جنگجوؤں‘ کو نکالنا تھی۔

یاد رہے کہ اس وقت وزیرستان میں القاعدہ سمیت عرب جنگجو اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان نامی ’جہادی تنظیم‘ کے ازبک غیر ملکی جنگجو رہتے تھے۔ کریٹیکل تھریٹ نامی تنظیم کے مطابق وہ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کے خلاف ’جہاد‘ میں حصہ لیتے تھے۔

امریکہ کے جیمس ٹاؤن فاؤنڈیشن نامی جریدے میں سادیہ سلیمان کے حافظ گل بہادر کے بارے میں 2009 میں لکھے گئے ایک مضمون کے مطابق ’پاکستانی حکومت اور حافظ گل بہادر کے مابین امن معاہدے میں افغان طالبان کے اس وقت کے سربراہ ملا عمر کا ہاتھ تھا۔‘

اس مضمون کے مطابق اس وقت ملا عمر کی جانب سے لکھے گئے ایک خط میں وزیرستان کے مقامی اور غیر ملکی جنگجوؤں کو بتایا گیا تھا کہ ’پاکستان کے خلاف جنگ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ امریکہ کے مفاد میں ہے‘۔

امن معاہدے میں شامل غیر ملکیوں کو نکالنے پر اس وقت کچھ غیر ملکی جنگجو حافظ گل بہادر سے ناراض بھی تھے اور جیمس ٹاؤن کے مضمون کے مطابق غیر ملکی جنگجوؤں کا موقف تھا کہ ’حافظ گل بہادر اور ان کے ساتھیوں نے حکومت کا ساتھ دے کر ہمارے ساتھ دھوکہ کیا ہے‘۔

تاہم جولائی 2007 میں امن معاہدہ ٹوٹ گیا اور پاکستانی حکومت اور حافظ گل بہادر گروپ کا ایک دوسرے کے خلاف الزامات کا سلسلہ شروع ہوگیا جبکہ حافظ گل بہادر نے اپنے جنگجوؤں کو بتایا کہ وہ ’پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف گوریلا جنگ کا آغاز کریں‘۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جیمس ٹاؤن کے مقالے کے مطابق اس کے ایک ماہ بعد اگست 2007 میں اس وقت اورکزئی ایجنسی جو اب ضلع بن چکی ہے کے جرگے نے دونوں فریقین کو راضی کر کے دوبارہ معاہدہ کیا اور فائر بندی کا اعلان کیا گیا۔

حافظ گل بہادر، ملا عمر اور حقانی نیٹ ورک

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صحافی رسول داوڑ کے مطابق حافظ گل بہادر افغان طالبان کے اس وقت کے سربراہ ملا محمد عمر اور حقانی نیٹ ورک کے قریبی سمجھے جاتے تھے اور پاکستانی حکومت کے ساتھ امن معاہدے کے بعد غیر ملکیوں کو نکالنے میں یہ تعلق آڑے آرہا تھا۔

رسول داوڑ کے مطابق ’ملا عمر اور حقانی نیٹ ورک کو افغانستان میں لڑنے کے لیے جنگجوؤں کی ضرورت تھی اور وزیرستان ان جنگجوؤں کا بیس سمجھا جاتا تھا۔ یوں امن معاہدے کے برخلاف غیر ملکی جہادی گروپوں کو حافظ گل بہادر کی جانب سے سپورٹ فراہم کی جا رہی تھی۔‘

ابھی معاہدہ ٹوٹا نہیں تھا، کہ وزیرستان میں موجود مختلف شدت پسند تنظیموں نے مل کر دسمبر 2007 میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے نام سے ایک مرکزی تنظیم بنانے کا اعلان کر دیا اور بیت اللہ محسود کو تنظیم کے سربراہ جبکہ حافظ گل بہادر کو ڈپٹی امیر بنا دیا گیا۔

تاہم ٹائمز اِنلائن کے مطابق ٹی ٹی پی بننے کے بعد جب ملا عمر نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ’جنگجوؤں کو افغانستان پر فوکس رہے‘، تو حافظ گل بہادر نے ٹی ٹی پی سے اپنے آپ کو دور رکھنا شروع کر دیا۔

بیت اللہ محسود اور حافظ گل بہادر کے مابین اختلافات

جیمس ٹاؤن کے مقالے کے مطابق 2008 میں پاکستانی فوج نے محسود طالبان کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا تو بیت اللہ محسود اور ان کے ساتھیوں نے شمالی وزیرستان کے علاقوں کا سکیورٹی فورسز پر حملوں کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا لیکن حافظ گل بہادر نے محسود طالبان کو ایسا کرنے سے منع کر دیا۔

اختلافات کے بعد حافط گل بہادر نے ’مقامی تحریک طالبان‘ کے نام سے تنظیم بنانے کا اعلان کیا اور حافظ گل بہادر تنظیم کے سربراہ اور ملا نذیر (2013 میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے) ڈپٹی بن گئے اور ان کو اس وقت ’وزیر الائنس‘ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ یہ وزیر طالبان پر مشتمل گروپ تھا۔

صحافی رسول داوڑ بتاتے ہیں کہ دلچسپ صورت حال تب بنی جب 2009 میں حافظ گل بہادر، بیت اللہ محسود اور ملا نذیر نے تمام اختلافات بھلا کر ’شوریٰ اتحاد المجاہدین‘ کے نام سے ایک الائنس کا اعلان کیا اور ایک ساتھ کام کرنے کا عہد کیا۔

رسول داوڑ کے مطابق ’اس وقت اتحاد بننے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا سارا فوکس افغانستان میں جہاد پر رکھیں گے اور یہ اتحاد ملا عمر کے کہنے پر بنایا گیا تھا۔ اس وقت حافظ گل بہادر اور ان کے ساتھی ملا نذیر پاکستانی سکیورٹی فورسز یا پاکستان میں حملوں کے مخالف تھے اور صرف افغانستان میں کارروائیوں پر زور دیتے تھے۔‘

افغان طالبان کا انخلا

حافظ گل بہادر اور ملا نذیر کے ساتھ پاکستانی حکومت کا معاہدہ 2009 تک چلتا رہا لیکن اس دوران پاکستانی حکومت  نے وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن تیز کر دیا جبکہ حافظ گل بہادر گروپ کی جانب سے پاکستانی حکومت کو سپورٹ ملتی تھی۔

اسی دوران امریکی ملٹری کی ویب سائٹ پر 2012 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 2010 میں ٹی ٹی پی کے بعض جنگجو افغانستان فرار ہو گئے اور وہاں پر خوست، کنڑ اور سرحد کے قریبی افغان صوبوں میں چھپ گئے اور وہاں سے پاکستان میں شدت پسند کارروائیوں کا آغاز کیا۔

رسول داوڑ کے مطابق ٹی ٹی پی کے موجودہ سربراہ مفتی نور ولی محسود بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ وہ حافظ گل بہادر گروپ کو اپنے ساتھ ملائیں لیکن وہ اس میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’حافظ گل بہادر اور ٹی ٹی پی کے آپس میں بہتر تعلقات ہیں لیکن دونوں گروپس کارروائیاں الگ الگ کرتے ہیں اور اس کی ذمہ داریاں قبول کرتے ہیں۔ حافظ گل بہادر گروپ کا زیادہ اثر و رسوخ شمالی وزیرستان، بنوں اور لکی مروت تک محدود ہے۔‘

پاکستانی حکومت کی جانب سے بارہا کہا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے شدت پسند افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں شدت پسند کارروائیوں میں ملوث ہیں اور پاکستان فوج کی جانب سے 18 مارچ 2024 کو جاری بیان میں بھی بتایا گیا ہے کہ افغانستان سے آنے والے شد پسند 16 مارچ کو وزیرستان کی سکیورٹی چیک پوسٹ حملے، گذشتہ سال چترال میں سرحد پار سے حملوں، بلوچستان کے ژوب میں ملٹری کمپاؤنڈ اور اس طرح کے دیگر حملوں میں ملوث ہیں۔

جبکہ پاکستان افغان حکومت سے حفظ گل بہادر کی حوالگی کا مطالبہ بھی کر چکا ہے۔

دوسری جانب افغان طالبان نے پاکستانی حکومت کے اس موقف کی بارہا تردید کی ہے کہ ٹی ٹی پی کے شدت پسند افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں لیکن امریکہ کی چند ماہ قبل افغانستان کے سکیورٹی حالات پر مبنی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’ٹی ٹی پی کے جنگجو افغانستان میں موجود ہیں اور ان کو افغان طالبان کی حمایت بھی حاصل ہے‘۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان