ہندو خواتین سال کے کسی مخصوص دن بھائیوکی کلائیوں پر دھاگا باند کر ان کی حفاظت کی دعا کرتی ہیں اور اسی طرح صوبہ سندھ کے علاقے نگرپارکر سے تعلق رکھنے والی کولہی برادری کی عورتوں نے 2009 میں صوبے میں پائے جانے والے خوشبودار گوند والے گُگُل یا گُگرال نامی نایاب درخت کو راکھی باندھ کر اس کی حفاظت کا عہد اٹھایا تھا۔
کولہی برادری کی خواتین نے گگل کو اپنا بھائی قرار دے کر اس کی حفاظت کی قسم کھائی اور ایسا اس نایاب درخت کو درپیش خطرات کے باعث کیا گیا تھا اور اس کو ’راکھی تحریک‘ کا نام دیا گیا تھا۔
اگرچہ اب راکھی تحریک بہت فعال نہین ہے تاہم اس نے علاقے کے لوگوں میں گگل کی اہمیت اور اس کو درپیش خطرات سے متعلق حساسیت پیدا کر دی ہے۔
ہمسایہ ملک انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ کے چمولی ضلع میں 70 کی دہائی میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا جب علاقے کی خواتین کٹے ہوئے درختوں کی نیلامی کے خلاف تنوں سے چپک (لپٹ) گئیں اور حکومت کو لکڑی کی فروخت منسوخ کرنا پڑی۔ یہاں سے ’چپکو تحریک‘ نامی درختوں کی حفاظت کی جدوجہد کا آغاز ہوا۔
سندھ کے صحرائے تھر اور کھیرتھر نیشنل پارک میں پائے جانے والے گُگُل یا گگرال کے درخت کو کئی سالوں سے خطرات لاحق ہیں جس کے باعث صوبائی حکومت نے خوشبو دار گوند والے اس پودے کو معدومیت سے بچانے کے لیے درخت کی کٹائی، اس کے گوند کی زیادہ مقدار حاصل کرنے کے لیے اس کے تنے میں کٹ لگانے یا کسی کیمیکل کی مدد سے زیادہ گوند حاصل کرنے اور اس پودے کی تمام حصوں کی مقامی یا عالمی سطح پر غیر قانونی تجارت پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔
سیکریٹری جنگلات و جنگلی حیات سندھ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق گُگُل کو سرکاری تحفظ سندھ جنگلی حیات تحفظ رولز 2020 کے تحت دیا جا رہا ہے۔
رولز کے مطابق سرکاری تحفظ دیے گئے تمام اقسام کے پودوں اور درختوں کو کاٹنا، جان بوجھ کر نقصان پہنچانا، ٹہنیاں توڑنا اور جڑوں کو نقصان پہنچانا غیر قانونی عمل ہے۔ تحفظ دیے گئے درخت سوکھ جانے کی صورت میں بھی جنگلی حیات کی پناہ گاہیں ہیں اور رولز سوکھے ہوئے درختوں یا پودوں کو بھی نقصان پہنچانا غیر قانونی قرار دیتے ہیں۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے صوبائی کنزرویٹر جاوید احمد مہر کے مطابق غیر قانونی طور پر گُگرال کے درخت کے تنے میں کٹ لگا کر یا کیمیکل استعمال کرنے کے واقعات میں اضافے کے بعد معدومیت سے بچانے کے لیے اس درخت کو سرکاری طور پر تحفظ دیا گیا ہے، تاکہ اس درخت کو سرکاری طور پر تحفظ حاصل ہو۔
2010 میں وفاقی وزارت ماحولیات اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی پاکستان کے صحراؤں میں پائے جانے والے سات پودوں کو ’انتہائی نایاب‘ اور ’معدومیت کے خطرے سے دوچار‘ قرار دیا تھا۔ گگل سمیت ان میں پانچ پودوں کا تعلق تھرپارکر سے تھا، جن میں گگل، پھوگ، ناگ پھن یا تھور جسے سندھی زبان میں تھوہر کہا جاتا ہے، کنڈی اور پھوگ شامل ہیں۔
گُگُل کے گوند کا استعمال
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے مطابق گُگل پنجاب کے کچھ حصوں، بلوچستان اور سندھ میں پایا جاتا ہے۔ یہ ایک جنگلی اور خودرو پودا ہے جو سندھ میں صحرائے تھر اور کھیرتھر نیشنل پارک میں پایا جاتا ہے۔ گُگل کا نباتاتی یا انگریزی نام کمیفورہ مکول ہے۔
تھر کے شاعر، ادیب اور ماحولیاتی کارکن بھارو مل امرانی نے کئی سال پہلے تھر میں گگل کے حفاظت کے لیے ’گرین گارڈ‘ نامی رضاکاروں کی ٹیمیں تشکیل دیں تھیں جو کئی سالوں تک گُگُل کی غیر قانونی کٹائی کی روک تھام کے لیے کام کرتے رہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بھارو مل امرانی نے کہا: ’ہم تھر کے باسی محکمہ جنگلی حیات سندھ کے گُگل کو سرکاری تحفظ دینے کا خیر مقدم کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں اس قدم سے اس خوشبودار درخت کو بچایا جاسکے گا۔‘
بھارو مل امرانی کے مطابق کِیکر اور دیگر درختوں کی طرح گُگُل کے درخت سے نباتاتی مرکب نکلتا ہے جو سوکھ کر سخت ہو جاتا ہے، جسے گوند کہا جاتا ہے۔
’کیکر کی نسبت گگل کے درخت سے قدرتی طور پر نکلنے والا گوند انتہائی خوشبو دار ہوتا ہے۔ جس کے جلانے سے خوشبودار دھواں اٹھتا اور ماحول کو معطر ہو جاتا ہے۔‘
بھارو مل امرانی نے بتایا: ’گگل کے درخت کے تنے سے قدرتی طور پر نکلنے والی خوشبودار گوند کو آیرویدک ادویات کے علاوہ مختلف بیماریوں بشمول موٹاپے، کولیسٹرول اور درد کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بخار اور دیگر بیماریوں کے لیے گگل کے گوند کی دھونی سے بھی علاج عام ہے۔
’کچھ مذاہب میں گگل کی خوشبو دار گوند کو مذہبی رسومات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندو مت میں ہَونَ یا مقدس مذہبی آگ کے دوران اس گوند کو جلایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ لوہی برتن میں تھوڑی سی آگ میں اس کا گوند ڈال کر دکانوں میں دھونی لگاتے ہیں اور بدلے میں دکاندار کچھ رقم دیتے ہیں۔
’گگل کا گوند مختلف جراثیم کش ادویات بنانے اور کچھ ممالک میں مچھروں کو بھگانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ عمارتی پینٹ میں رنگوں کو نکھارنے کے لیے بھی گُگُل کے گوند کا استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے اس گوند کی مقامی اور عالمی منڈی میں بڑی مانگ ہے۔ عالمی منڈی میں مانگ کے باعث اس گوند کی قیمت بہت زیادہ ہے۔‘
بھارو مل امرانی نے مزید بتایا کہ کچھ لوگ اپنے گھروں کو مچھروں اور دیگر جراثیموں سے محفوظ بنانے کے لیے اپنے گھر کے کے چاروں طرف گُگرال کے درخت کی ٹہنیوں کی باڑ لگاتے ہیں۔ کسان کھیت کو سنڈیوں اور دیگر کیڑوں مکوڑوں سے بچانے کے لیے کھیتوں کے اطراف میں اس درخت کی ٹہنیوں کی قلمیں لگاتے ہیں۔
کراچی کے صدر میں گذشتہ 30 سے زیادہ عرصے سے جڑی بوٹیوں کی دوکان چلانے والے پنساری حاجی محمد عثمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گرتے وقت کے ساتھ انٹرنیٹ پر دیگر اشیا کی طرح گُگُل کے گوند کے فوائد دیکھ کر اس کے استعمال میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حاجی محمد عثمان کے مطابق: ’عام کوالٹی کے گوند کی مقامی مارکیٹ میں قیمت چھ ہزار سے آٹھ ہزار روپے فی کلو ہے، جب کہ بہت اعلیٰ کوالٹی والے گوند کی قیمت 12 سے 14 ہزار روپے کلو تک ہے۔ عالمی مارکیٹ میں یہ قیمت کئی گنا زیادہ ہے۔‘
بھارو مل امرانی کے مطابق بارش کے بعد زمیں پر گرے گگل کے بیجوں سے کونپلیں نکلتی ہیں جب کہ مویشی اس کے پتوں کو شوق سے کھاتے ہیں۔ گگل کے ایک بڑے درخت سے ایک مہینے میں تقریباً ایک کلو گوند نکلتا ہے۔
’زیادہ قیمتوں کے باعث اکثر یہ گوند درخت کے تنے میں چھید لگا کر یا کیمیکلز کی مدد سے حاصل کی جا رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ مصنوعی طور پر گوند نکالنے کے لیے ہینگ استعمال کی جاتی ہے لیکن اس وجہ سے درخت جلد ہی سوکھ کر مر جاتا ہے۔
کیمیکل سے نکالے گئے اور قدرتی گوند میں فرق
تھر سے متصل پارکر کے پہاڑی سلسلے کارونجھر کے تحفظ کے لیے گذشتہ کئی سالوں سے تحریک چلانے والے نگرپار کے رہائشی اللہ رکھیو کوسو کے مطابق 2010 میں محکمہ جنگلات کی اجازت سے ایک ٹیم نے نگرپارکر آکر اعلان کیا کہ وہ کارونجھر پہاڑی میں بیری کے درخت لگائیں گے۔ مگر بعد میں پتہ چلا کہ وہ اصل میں گگل کے درخت کو کٹ لگا کر غیرقانونی طور پر گوند حاصل کر رہے تھے، جس کے بعد گگل کو کٹ لگانے اور کیمیکل سے گوند نکالنے کا آغاز ہوا۔
’میرے بچپن میں کارونجھر پہاڑی میں بڑی تعداد میں گگل کے جنگلات تھے۔ مگر اب چند علاقوں میں ہی یہ درخت بچے ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اللہ رکھیو کھوسو نے بتایا کہ تھر میں لوگ نوزائیدہ بچوں کے پیٹ کے علاج کے لیے انہیں گُگرال کے گوند کی ستی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ جوڑوں کے درد کے لیے گُگرال کے گوند کو کھجور میں رکھ کر جلایا جاتا جو مائع بن جاتا ہے جسے درد کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اللہ رکھیو کھوسو کے مطابق: ’گُگرال کے درخت سے قدرتی طور پر گوند بارش کے بعد تھوڑی مقدار میں نکلتا ہے۔ جسے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کیمیکل سے نکالے گئے گوند میں وہ افادیت نہیں ہوتی جو قدرتی گوند میں ہوتی ہے۔‘