سینیٹ انتخابات: اسحاق ڈار، اورنگزیب، مصدق، واوڈا کامیاب

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی نشستوں پر سینیٹرز کے انتخاب کے لیے پولنگ کا عمل مکمل ہو چکا ہے جس کے بعد نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔

دو اپریل 2024 کو پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے انتخاب کے لیے پولنگ کا عمل جاری ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

سینیٹ انتخاب سے متعلق اہم خبریں

  • خیبر پختونخوا میں سینیٹ انتخاب ملتوی۔
  • پی ٹی آئی غیر قانونی طور پر منتخب اراکین کو حلف نہیں لینے دے گی: علی امین گنڈا پور۔

2 اپریل، شب پانچ بج کر 45 منٹ

سندھ اسمبلی: 12 نشستوں میں سے 10 پیپلز پارٹی، ایک ایم کیو ایم اور ایک آزاد امیدوار کامیاب

سندھ اسمبلی میں سینیٹ کی 12 نشستوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیامینٹیرینز (پی پی پی پی) کے 10 امیدوار، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کا ایک اور ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوا۔ 

ترجمان الیکشن کمیشن سندھ کے مطابق سندھ اسمبلی میں سینیٹ کے 12 نشستوں کے لیے صبح نو بجے سے شام چار بجے تک بلاتعطل ووٹنگ جاری رہی۔

جماعتِ اسلامی اور سنی اتحاد کونسل کے اراکین ووٹ کاسٹ کرنے نہیں آئے۔ اس کے علاوہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے تین اراکینِ سندھ اسمبلی نے تاحال اپنا حلف نہیں اٹھایا ہے اس لیے وہ بھی ووٹ کاسٹ نہ کرسکے۔

نتائج کے مطابق سات جنرل نشستوں پر پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ اراکین کامیاب قرار دیے گئے جن میں اشرف علی جتوئی، دوست علی جیسر، کاظم علی شاہ، مسرور احسن اور ندیم بھٹو شام ہیں۔

جنرل نشست پر ایم کیو ایم پاکستان کے عامر چشتی سینیٹر منتخب ہوئے آزاد امیدوار فیصل واوڈا بھی سندھ اسمبلی سے سینیٹر منتخب ہو گئے۔ 

خواتین کی دو نشستوں پر پی پی پی کی امیدوار روبینہ قائم خانی اور قراۃ العین مری، اقلیت کی ایک نشست پر بھی پی پی پی کے پونجومل بھیل کامیاب ہوگئے۔

سندھ سے سینیٹ کی ٹیکنوکریٹ کی دو نشستوں پر بھی پی پی پی کے امیدوار سرمد علی اور ضمیر گھمرو سینیٹر منتخب ہوگئے۔ 

سندھ سے سینیٹ کی 12 نشستوں کے لیے 19 امیدواروں نے حصہ لیا۔


2 اپریل، شب پانچ بج کر 10 منٹ

پنجاب اسمبلی: محمد اورنگزیب اور مصدق ملک منتخب، یاسمین راشد کو شکست

پنجاب اسمبلی میں سینیٹ کی ٹیکنوکریٹ نشست پر مسلم لیگ ن کے محمد اورنگزیب اور مصدق ملک کامیاب قرار پائے ہیں۔ محمد اورنگزیب نے 128 ووٹ اور مصدق ملک نے 121 ووٹ حاصل کیے۔

ڈاکٹر یاسمین راشد کو 106 ووٹ ملے اور وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔

خواتین کی نشستوں پر مسلم لیگ ن کی انوشہ رحمن اور بشریٰ بٹ بالترتیب 125 اور 123 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں جب کہ سنی اتحاد کونسل کی صنم جاوید خان نے 102 ووٹ حاصل کیے اور ناکام رہیں۔

اقلیتی نشست پر مسلم لیگ ن کے خلیل طاہر سندھو 253 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔


2 اپریل، شب چار بج کر 45 منٹ

اسحاق ڈار، رانا محمود الحسن منتخب

قومی اسمبلی میں سینیٹ انتخابات کی پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد گنتی کا آغاز ہو چکا ہے اور ایوان میں موجود انڈپینڈنٹ اردو کی نمائندہ قرۃ العین شیرازی کے مطابق مسلم لیگ ن کے اسحاق ڈار 222 ووٹ لے کر ٹیکنوکریٹ سیٹ پر سینیٹر منتخب ہو گئے ہیں جبکہ سنی اتحاد کونسل کے انصر کیانی نے 81 ووٹ لیے۔ 

دوسری جانب جنرل نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رانا محمودالحسن بھی 224 ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوئے ہیں جبکہ سنی اتحاد کونسل کے فرزند علی شاہ نے 79 ووٹ حاصل کیے۔


پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی 30 نشستوں پر سینیٹرز کے انتخاب کے لیے پولنگ کا عمل مکمل ہو چکا ہے جس کے بعد گنتی جاری ہے۔

سینیٹ انتخاب میں کل 59 امیدوار میدان میں اترے ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان پہلے ہی بلوچستان اور پنجاب کی خالی نشستوں پر بلا مقابلہ منتخب ہونے والے 18 امیدواروں کی فہرست جاری کر چکا ہے۔

قومی اسمبلی، پنجاب اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں کے باقی 30 نشستوں پر پولنگ آج ہوئی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ انتخابات کی تمام تیاریوں کو حتمی شکل گذشتہ روز ہی دے دی تھی۔

قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ صبح نو بجے شروع ہوئی اور سہ پہر چار بجے اختتام پذیر ہو گی۔

سینیٹ انتخابات کے لیے چار مختلف رنگوں میں بیلٹ پیپرز بھی چھاپے گئے ہیں۔

ریڈیو پاکستان کے مطابق وائٹ پیپر جنرل نشستوں کے لیے، ٹیکنوکریٹ کی نشستوں کے لیے سبز، خواتین کے لیے گلابی اور اقلیتی نشستوں کے لیے پیلے رنگ کے کاغذات استعمال کیے جائیں گے۔

چھ سال کی مدت کے لیے منتخب ہونے والے پاکستانی سینیٹرز دیگر عوامی نمائندوں کی طرح قوانین پر تبادلہ خیال کرتے اور ان پر ووٹ دیتے ہیں۔

 تاہم ہر تین سال بعد نصف سینیٹرز ریٹائر ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے سینیٹرز کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

پاکستان کی سینیٹ 100 ارکان پر مشتمل ہے جن میں سے 52 رواں ماہ ریٹائر ہو چکے ہیں جبکہ 48 خالی نشستوں پر انتخابات ہونے ہیں۔

رواں ماہ خالی ہونے والی 52 نشستوں میں سے 48 پر انتخابات ہو رہے ہیں کیونکہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے لیے مختص چار نشستیں صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد پہلے ہی ختم ہو چکی ہیں۔

انتخابات عام طور پر سینیٹرز کی مدت ختم ہونے سے چند دن پہلے ہوتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے بروقت عام انتخابات کرانے میں ناکامی کی وجہ سے ان میں تاخیر ہوئی۔

الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جاری پریس ریلیز کے مطابق 48 خالی نشستوں کے لیے 147 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں سینیٹ کا انتخاب ملتوی

صوبہ خیبرپختونخوا کے ریٹرننگ آفیسر اور صوبائی الیکشن کمشنر شمشاد خان نے اعلان کیا ہے کہ صوبے میں سینیٹ انتخاب ملتوی کردیے گئے ہیں۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے خیبر پختونخوا میں سینیٹ انتخابات ملتوی ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے واضح الفاظ میں  بتایا کہ وہ غیر قانونی طور پر بننے والے اراکین کو حلف  اٹھانے نہیں دیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو مخصوص نشستیں غیر آئینی طور پر دی گئی ہیں اور ہم ان کے خلاف بھرپور مقابلہ کریں گے۔

آج صبح خیبر پختونخوا میں سینیٹ کا انتخاب شروع نہ ہو پانے کے حوالے سے الیکشن کمیشن خیبر پختونخوا کے ترجمان محمد سہیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم انتظار کر رہے ہیں کیوں کہ افسران بالا نے فیصلہ کرنا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’الیکشن کمیشن کا انتخابی عملہ اسمبلی میں موجود تھا اور ایک قسم کا انتظار کر رہے تھے اور بعد میں ریٹرننگ افیسر کی جانب سے انتخابات کو تاحکم ثانی ملتوی کر دیا گیا۔‘

الیکشن کمیشن نے گذشتہ روز خیبر پختونخوا میں سینیٹ انتخاب، اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر کامیاب امیدواروں کی حلف برداری سے مشروط کیا تھا۔

اسی حوالے سے آج پشاور ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ بھی زیر سماعت ہے۔

سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی نے عدالت میں الیکشن کمیشن کی جانب سے سینیٹ انتخاب کو مخصوص نشستوں پر کامیاب امیدواروں کی حلف برداری سے مشروط کرنے کے خلاف درخواست دائر کی ہے۔

سندھ میں پاکستان تحریک انصاف کا سینیٹ الیکشن کا بائیکاٹ

صوبوں اور وفاق میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے 31 مارچ کو انصاف ہاؤس کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران سندھ سے سینیٹ الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا۔

تحریک انصاف سندھ کے رہنما حلیم عادل شیخ نے کہا کہ ’سینیٹ کا الیکشن چوری سے جیتا جا رہا ہے، سندھ سے پی ٹی آئی کے چھ امیدوار سینیٹ الیکشن کے لیے میدان میں تھے تاہم اب وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔

پی ٹی آئی کے ارکان سندھ اسمبلی کی تعداد نو ہے اور سات جنرل نشستیں ہیں۔ ایک نشست کے لیے 21 یا 23 ووٹ درکار ہوتے ہیں اور پی ٹی آئی کے اتحادی بھی سندھ اسمبلی میں موجود نہیں ہیں اس لیے بظاہر اس تعداد کا کسی کو فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔

پیپلز پارٹی کے 11، ایک متحدہ قومی موومنٹ کے فرحان چشتی اور ایک فیصل واوڈا  یہ مجموعی طور پر 13 ارکان ہیں۔

سینیٹ انتخاب کا فارمولا کیا ہے؟

کسی بھی صوبائی اسمبلی سے سینیٹر منتخب ہونے کے لیے اس اسمبلی کے کل کاسٹ کیے گئے ووٹ کو سینیٹ کی سات جنرل اسمبلی نشستوں سے تقسیم کیا جاتا ہے۔

مثلاً پنجاب اسمبلی میں کُل اراکین کی تعداد 371 ہے اور اگر ہر رکن نے ووٹ کاسٹ کیا ہے تو کاسٹ کیے گئے کل ووٹ یعنی 371 کو سات سے تقسیم کیا جائے گا اس طرح تعداد 53 بن رہی ہے۔

اسی طرح بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے کُل ووٹ کاسٹ کرنے والے اراکین کو سات جنرل نشستوں سے تقسیم کر کے صوبے میں سات جنرل نشستوں پر سینیٹ کے لیے ووٹ کا تناسب نکالا جا سکتا ہے اور یہی فارمولا خواتین اور اقلیتوں کی نشستوں کے لیے بھی لاگو ہوتا ہے۔

مثلاً پنجاب میں خواتین کی دو نشستوں کے لیے کل ووٹ کاسٹ کرنے والے اراکین کو دو پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ 

اگر امیدوار وہ ’گولڈن نمبر‘ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو ایسی صورت میں کسی بھی نشست پر انتخاب لڑنے والا امیدوار، اس نشست کے تمام امیدواروں میں سب سے زیادہ ترجیحی ووٹ حاصل کرنے کی صورت میں بھی کامیاب قرار پائے گا۔

اگر کوئی امیدوار گولڈن نمبر سے زائد ووٹ حاصل کرتا ہے تو اس کے ووٹ، اس سے اگلے ترجیحی امیدوار کو منتقل کیے جاتے ہیں۔ دوسرا امیدوار بھی اگر یہی ہندسہ حاصل کرتا ہے تو یہ سلسلہ آگے بڑھتا جائے گا اور مطلوبہ سینیٹرز کی تعداد تک پہنچنے تک ایسا ہی جاری رہے گا۔

سینیٹ انتخاب میں اراکین کو ترجیحی فہرست دی جاتی ہے جو بیلٹ پیپر پر بغیر انتخابی نشان کے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر سندھ کی سات جنرل نشستوں پر اگر 15 امیدوار حصہ لے رہے ہیں تو سندھ اسمبلی کے تمام اراکین کو بیلٹ پیپر پر امیدواروں کے آگے ایک سے لے کر 15 تک اپنے ترجیحی نمبر دینے ہوں گے اور اگر ووٹ کاسٹ کرنے والا رکن ایک ہندسہ بھول جائے یعنی نو کے بعد 10 کی ترجیح لگانے کے بجائے کسی امیدوار کے سامنے 11 کی ترجیح لگا دے تو اس کے نو ووٹ گنے جائیں گے جبکہ نو کے بعد 15 تک کے سارے ترجیحی ووٹ کینسل یا منسوخ شمار ہوں گے۔

ایوان بالا تین ہفتوں کے لیے غیر فعال

عمومی طور پر سینیٹرز کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی سینیٹ الیکشن ہو جاتے ہیں اس طرح ایوان بالا غیر فعال نہیں ہوتا لیکن اس مرتبہ تین ہفتوں تک ایوان بالا میں آدھے قانون ساز نہیں تھے اور نہ ہی چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عام انتخابات میں تین ماہ تاخیر کے باعث الیکٹورل کالج مکمل نہیں تھا۔

پہلے صوبائی اور قومی اسمبلی کے حلف ہوئے، اسمبلیاں مکمل ہوئیں، وزیراعظم اور صدر کے انتخابات ہوئے اور اب سینیٹ کے انتخاب کا مرحلہ مکمل کیا جا رہا ہے۔

گذشتہ سینیٹ انتخابات میں اراکین کا کتنا تناسب موجود ہے؟

گذشتہ انتخابات دو مارچ 2021 کو ہوئے تھے، جن میں پنجاب سے تمام 11 سینیٹرز بلا مقابلہ منتخب ہوئے جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی 12 اور سندھ کی 11 نشستوں پر الیکشن ہوا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلوچستان کی 12 نشستوں پر چھ بلوچستان عوامی پارٹی، جمعیت علمائے اسلام پاکستان کی دو نشستیں، دو آزاد، ایک اے این پی اور ایک بی این پی جماعت کو نشست ملی تھی۔

خیبر پختونخوا کی 12 نشستوں میں سے 10 پاکستان تحریک انصاف جبکہ جمعیت علمائے پاکستان اور عوامی نیشنل پارٹی کو ایک ایک نشست ملی۔

پنجاب کی 11 نشستوں میں سے پانچ پی ٹی آئی، پانچ پاکستان مسلم لیگ ن اور ایک پاکستان مسلم لیگ کو ملی تھیں۔

اسی طرح سندھ کی 11 نشستوں میں سے آٹھ پیپلز پارٹی، دو ایم کیو ایم اور ایک پی ٹی آئی کو ملی تھی۔

اسلام آباد کی دو نشستوں میں سے ایک پیپلز پارٹی اور ایک پی ٹی آئی کو ملی تھی۔

سینیٹ انتخاب میں کون حصہ لیتا ہے؟

ایوان بالا میں اراکین کا انتخاب براہ راست عوام نہیں کرتی بلکہ اسمبلیوں میں موجود عوام کے منتخب نمائندے کرتے ہیں۔

صوبوں سے سینیٹ کے امیدواروں کا انتخاب وہاں کی صوبائی اسمبلی کے اراکین جب کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے سینیٹر کا انتخاب اراکین قومی اسمبلی کرتے ہیں۔

سینیٹ الیکشن کے روز چاروں صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی پولنگ سٹیشنز میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کا عملہ پولنگ کرواتا ہے۔

11 مارچ کو سبکدوش ہونے والے سینیٹرز

ریٹائر ہونے والے 52 سینیٹرز میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، ڈپٹی چیئرمین مرزا آفریدی، قائد ایوان اسحاق ڈار، قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم اور سینیٹر رضا ربانی بھی شامل ہیں۔

سبکدوش ہونے والوں میں مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ 13، پاکستان پیپلز پارٹی کے 12، پی ٹی آئی کے آٹھ، جمعیت علمائے اسلام ف، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے دو، دو اراکین، بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت سے منتخب چھ جبکہ جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کے ایک، ایک سینیٹرز شامل ہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست