سڈنی مال میں حملہ آور کو روکنے والے شخص کے لیے آسٹریلوی شہریت کا اعلان

آسٹریلوی وزیر اعظم البانیز کا کہنا ہے کہ ’میں ویزا کی درخواست دینے والے ڈیمین گیروٹ سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو یہاں خوش آمدید کہا جاتا ہے اور یہ کہ آپ جب تک چاہیں یہاں قیام کر سکتے ہیں۔‘

فرانسیسی تعمیراتی کارکن ڈیمین گیروٹ کو کچھ لوگوں نے ’بولارڈ مین‘ کا اس وقت خطاب دیا جب سی سی ٹی وی فوٹیج میں انہیں ویسٹ فیلڈ بونڈی جنکشن میں ایسکلیٹر پر بولارڈ کے ساتھ چاقو سے حملہ آور کا سامنا کرتے ہوئے دیکھا گیا (سکرین گریب/ دی انڈپینڈنٹ)

‌آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانیز نے سڈنی کے شاپنگ مال بونڈی جنکشن میں حملہ آور جوئل کاؤچی کا مقابلہ کرنے والے فرانسیسی شہری کی ’غیر معمولی بہادری‘ پر ان کی تعریف کرتے ہوئے انہیں ملک کی شہریت دینے کا اعلان کیا ہے۔

فرانسیسی تعمیراتی کارکن ڈیمین گیروٹ کو کچھ لوگوں نے ’بولارڈ مین‘ کا اس وقت خطاب دیا جب سی سی ٹی وی فوٹیج میں انہیں ویسٹ فیلڈ بونڈی جنکشن میں ایسکلیٹر پر بولارڈ کے ساتھ چاقو سے حملہ آور کا سامنا کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

اس حملے میں چھ افراد اپنی جانوں سے گئے اور 12 زخمی ہوئے تھے جبکہ حملہ آور بھی ایک پولیس افسر کی گولی سے مارا گیا تھا۔

وزیر اعظم البانیز نے درالحکومت کینبرا میں صحافیوں کو بتایا کہ ’میں ویزا کی درخواست دینے والے ڈیمین گیروٹ سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو یہاں خوش آمدید کہا جاتا ہے اور یہ کہ آپ جب تک چاہیں یہاں قیام کر سکتے ہیں۔ ہم ان کے آسٹریلوی شہری بننے کا خیرمقدم کریں گے، حالانکہ یہ یقیناً فرانس کا نقصان ہوگا۔‘

اے بی سی نیوز کے مطابق گیروٹ کی وکیل، بیلنڈا رابنسن نے کہا کہ انہیں مستقل رہائش دی جائے گی اور وہ صرف سرکاری دستاویزات کا انتظار کر رہے ہیں جن کی جلد ہی ملنے کی امید ہے۔

گیروٹ کی بہادری کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے جہاں بہت سے لوگ اس وقت ان کے لیے مستقل رہائش کا مطالبہ کرنے لگے جب یہ خبریں سامنے آئیں کہ ان کا ویزا ایک ماہ میں ختم ہو جائے گا۔

‌اے بی سی نیوز کے مطابق ان کی وکیل رابنسن نے ایک آن لائن پٹیشن شروع کی تھی جس میں گیروٹ کو آسٹریلیا کی شہریت دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایک خطرناک قاتل کا مقابلہ کر کے بغیر سوچے سمجھے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بے لوث بہادری کا مظاہرہ کیا۔

انتھونی البانیز نے کہا کہ ’یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں انسانیت کے بارے میں بہت کچھ بیان کرتا ہے جب ہم مشکل مسائل کا سامنا کر رہے ہیں اور ایک شخص جو اس ملک کا شہری بھی نہیں ہے، بہادری کے ساتھ ایسکلیٹرز پر کھڑا ہوا اور مجرم کو آگے بڑھنے سے روکا جو ایک اور منزل پر مزید شہریوں کے قتل عام کا باعث بنتا۔ میرا خیال ہے کہ ہفتے کے روز ہم نے انسانی کردار کا بھی اسی وقت مشاہدہ کیا جب ہم نے ایسا تباہ کن سانحہ دیکھا۔ اور میں ڈیمین کی غیر معمولی کوششوں کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘

آسٹریلیا ابھی اس حملے کا سوگ منا رہا تھا کہ پیر کو صرف تین دن بعد ایک اور چاقو کے حملے نے ملک کو لرزا دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مغربی سڈنی کے گرجا گھر میں ہونے والے حملے میں چار افراد زخمی ہوئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ’دہشت گردی‘ کی کارروائی تھی۔

وزیر اعظم البانیز نے کہا کہ آسٹریلیا میں پرتشدد انتہا پسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’ہم ایک امن پسند قوم ہیں۔ یہ وقت ایک برادری اور ایک ملک کے طور پر متحد ہونے کا ہے، تقسیم کا نہیں۔‘

ہفتے کے حملے کے بعد گیروٹ نے کہا کہ وہ اپنے دوست سیلاس ڈیسپریوکس کے ساتھ، نتائج کی پروا کیے بغیر حملہ آور سے مقابلہ کرنے کے لیے کود پڑے۔

گیروٹ نے اتوار کو آسٹریلوی ٹی وی نیٹ ورک چینل سیون کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ہم نے جب اسے آتے دیکھا تو ہم سوچ رہے تھے کہ ہمیں اسے روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘

جیسے ہی گیروٹ نے کاؤچی کو پلاسٹک کے بولارڈ سے روکا تو وہ پیچھے مڑا اور ایسکلیٹر سے نیچے بھاگ گیا لیکن وہ یہیں نہیں رکے اور کرسی لے کر اس کے پیچھے بھاگے۔

گیروٹ نے کہا کہ ’ہم نے شاید اس کی طرف بولارڈ پھینکنے کی کوشش کی لیکن ہم اسے پکڑ نہیں سکے۔‘

اس وقت تک کاؤچی کے پیچھے ایک پولیس افسر بھی تھا جنہوں نے انسپیکٹر ایمی سکاٹ پر چاقو سے حملہ کیا تاہم وہ گولی لگنے سے مارے گئے۔

پولیس نے کہا ہے کہ وہ 40 سالہ کاؤچی کے محرکات کی تحقیقات کر رہے ہیں تاہم انہوں نے نوٹ کیا ہے کہ انہیں دماغی صحت کے مسائل تھے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا