گلالئی سے آخری ملاقات 30 مئی کو ہوئی تھی: والد

سماجی کارکن اور پشتون تحفظ موومنٹ کی پُر زور حامی گلالئی اسماعیل نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے اپنی امریکہ آمد کا اعلان کیا۔

قریبی ذرائع کے مطابق  مئی میں وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد گلالئی اسماعیل  سلام آباد اور پھر صوابی میں روپوش تھیں، جس کے بعد وہ دوستوں کی مدد سے افغانستان کے راستے امریکا چلی گئیں (فوٹو: اے ایف پی)

سماجی کارکن اور پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی پُر زور حامی گلالئی اسماعیل امریکہ پہنچ گئی ہیں، جس کا اعلان انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے ذریعے کیا۔

اپنے پیغام میں گلالئی اسماعیل نے بتایا کہ ان کے امریکہ آنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے پناہ حاصل کر سکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے چند مہینے بہت بھیانک تھے۔ اس دوران انہیں ڈرایا، دھمکایا گیا لیکن وہ خوش قسمت ہیں کہ زندہ ہیں۔

گلالئی کے والد محمد اسماعیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’انہیں خود آج معلوم ہوا ہے کہ ان کی بیٹی امریکہ پہنچ گئی ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ کچھ مہینوں سے ان کی گلالئی سے کوئی بات نہیں ہوئی ہے کیونکہ ان کی فون کالز ریکارڈ ہو رہی تھیں۔ ’مئی کے مہینے میں گلالئی کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔ میری ان سے آخری بار ملاقات پشاور میں 30 مئی کو ہوئی تھی۔ اس موقعے پر گلالئی نے بتایا تھا کہ اب ہماری ملاقات نہیں ہو سکے گی۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے دوست ان کی مدد کریں گے۔‘

دوسری جانب انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ’ ہیومنسٹس یو کے‘ کے چیف ایگزیکٹیو اینڈریو کوپسن نے بھی آج ٹوئٹر پر لکھا تھا کہ ’ان کی ساتھی گلالئی اسماعیل ان کے ساتھ نیویارک میں ہیں اور بہت جلد ان کے ساتھ ہیومنسٹس انٹرنیشنل ادارے میں نئی بورڈ رکن کے طور پر اپنے فرائض انجام دیں گی۔‘

گلالئی کے کچھ قریبی ذرائع نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مئی میں وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد وہ اسلام آباد اور پھر صوابی میں روپوش تھیں، جس کے بعد وہ دوستوں کی مدد سے افغانستان کے راستے امریکہ چلی گئیں۔

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’افسوس رہے گا کہ اس ملک میں سچ بولنے کی اجازت نہیں ہے‘

گلالئی کے والد محمد اسماعیل کو امید ہے کہ ہو سکتا ہے آج ان کی بیٹی کی کال آ جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی ادارے ان کی بیٹی کے خلاف تو تھے ہی لیکن ان کے اور ان کی بیوی کے خلاف بھی ریاست کی جانب سے ایف آئی آر درج کرا دی گئی ہے، جس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ گلالئی اسماعیل بیرون ممالک سے ایک ملین ڈالرز لے کر آئی تھیں جو ہم میاں بیوی نے طالبان کو دی ہے۔‘

محمد اسماعیل نے سوال کیا: ’ہم پر بے سر وپا الزامات کیوں لگائے جا رہے ہیں جب کہ ان ہی طالبان نے گاؤں میں واقع ہمارے گھر پر حملہ کیا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اب ہم تب تک اس ملک سے نہیں جائیں گے جب تک ہم خود کو بے گناہ ثابت نہیں کر دیتے۔‘

پروفیسر اسماعیل نے بتایا کہ ان کی چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں، جو سب امریکہ میں ہیں۔ ’میری ایک چھوٹی بیٹی کی شکل گلالئی سے زیادہ ملتی ہے، لہٰذا اس کو فالو کیا جاتا رہا۔ ایک دن ہمیں پیغام موصول ہوا کہ وہ بازار میں میری بیٹی کو گولیوں سے بھوننا چاہتے تھے لیکن پھر انہیں شک ہوا کہ یہ گلالئی نہیں ہے۔ یہ سن کر ہمیں دھچکہ لگا اور ہم نے فوراً اسے باہر بھیج دیا۔ میرے تمام بچے بہو سمیت امریکہ میں ہیں۔ ہم میاں بیوی یہاں رہ کر کیا کریں گے۔‘

جب محمد اسماعیل سے گلالئی کے شوہر کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ’وہ تو تب تک گلالئی کے ساتھ تھا جب تک حالات ٹھیک تھے۔ جب سے گلالئی کے خلاف گھیرا تنگ ہوا، ہم نے اسے نہیں دیکھا۔ وہ بس اب اپنی فکر میں ہے۔‘

پروفیسر اسماعیل نے مزید بتایا کہ ان کے گھر میں کیمرے لگوائے تھے، ان کی تمام فون کالز ریکارڈ کی جاتی رہی ہیں جبکہ دوستوں اور رشتہ داروں کے گھر بھی چھاپے مارے گئے۔ ’ہم چلے تو جائیں گے اس ملک سے، لیکن یہ افسوس رہے گا کہ اس ملک میں سچ بولنے کی اجازت نہیں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان