موسیقی تخلیقی انداز میں جذبات کے اظہار کا ذریعہ ہے: ماہا علی

پاکستانی گلوکارہ ماہا علی کاظمی کا گانا ’فنا‘ حال ہی میں ریلیز ہوا ہے جس کے بول بھی انہوں نے خود ہی تحریر کیے ہیں۔

’اپنے گانے خود لکھتی، گاتی اور پروڈیوس کرتی ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ موسیقی ایک ایسا آرٹ ہے جس کے ذریعے انسان اپنے جذبات کو، خواہ وہ خوشی ہو یا غم، تخلیقی انداز میں ایک گانے کے ذریعے چند الفاظ میں بیان کر دیتا ہے، تو موسیقی ایک طرح جذبات کی ترجمان بھی ہے۔‘

یہ کہنا ہے پاکستانی گلوکارہ ماہا علی کاظمی کا جن کا گانا ’فنا‘ حال ہی میں ریلیز ہوا ہے جس کے بول بھی انہوں نے خود ہی تحریر کیے ہیں۔

کراچی میں رہائش پذیر ماہا علی کاظمی نہ صرف گانے گاتی ہیں بلکہ کتھک ڈانس سے خاص شغف بھی رکھتی ہیں۔

ماہا علی کاظمی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے عید پر ایک گانا فنا کے نام سے ریلیز کیا جو ایک رومانوی گانا ہے۔‘

’فنا محبت کی انتہا کے مرکزی خیال پر لکھا گیا ہے، گانے میں بتایا گیا ہے کہ محبت کی شدت کے لمحات بہت خوبصورت ہوتے ہیں مگر باقی نہیں رہتے بلکہ فنا ہو جاتے ہیں، تو یہ زندگی اور تعلقات کی بے ثباتی کے بارے میں ایک گانا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’گانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان چاہتا ہے کہ اپنے پیاروں کے ساتھ خوشیوں کے لمحوں کو کسی طرح روک لیا جائے۔ گانے میں بھی میں نے یہی لکھا ہے کہ تھم جائے یہ پل دل کی طرح۔۔۔

’بچپن سے ہی مجھے گانے کا بہت شوق تھا، میں 14 یا 15 سال کی تھی جب میں سکول میں گانوں کے مقابلوں میں حصہ لیتی تھی، پھر میرے کچھ دوست جن کا ایک بینڈ تھا انہوں نے مجھے کہا کہ تم ہمیں بطور گلوکارہ جوائن کرو، وہاں سے گلوکاری سے میرا لگاؤ زیادہ بڑھا مگر اس کے بعد میں بزنس میں ڈگری حاصل کرنے آسٹریلیا چلی گئی۔‘

ماہا علی کاظمی کہتی ہیں کہ ’ڈگری مکمل ہونے سے قبل ہی میں نے گانے لکھنے شروع کر دیے اور پھر میری ’اوور لوڈ بینڈ‘ کے پروڈیوسر فرہاد ہمایوں سے ملاقات ہوئی، انہوں نے میری آواز کو بہت سراہا اور کہا کہ آپ کراچی آئیں تو ہم مل کر کام کریں گے، میں آپ کے لیے گانا پروڈیوس کرنا چاہتا ہوں۔‘

میوزک کے اپنے سفر کے بارے میں بتاتے ہوئے ماہا علی کاظمی نے کہا کہ ’میں نے پاکستان آ کر کورنیٹو میوزک آئیکون کے لیے اپلائی کیا اور بطور بیک اپ سنگر منتخب ہو گئی۔

’اس موقعے نے میرے میوزک کریئر کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا اور مجھے راحت فتح علی خان، علی عظمت، عامر ذکی جیسے سینیئر گلوکاروں اور موسیقاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔

’وہ ایک طریقے سے میری میوزک انڈسٹری میں انٹری تھی۔ پھر میں نے لاہور جا کر فرہاد کے ساتھ اپنا پہلا سولو گانا نظر، ریکارڈ کیا، اور یوں میرے میوزک کے سفر کا آغاز ہوا اور تب سے میں گانے خود لکھتی، گاتی اور پروڈیوس کرتی ہوں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں ماہا نے بتایا کہ ’میں بنیادی طور پر کشمیری ہوں اور میرے آباؤ اجداد کا تعلق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر سے ہے، میں سری نگر کا دورہ بھی کر چکی ہوں اور میرے متعدد ددھیالی رشتے دار وہاں اب بھی رہائش پذیر ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جب میں نے کشمیر کا دورہ کیا تو مجھے ان کا میوزک اور آلات موسیقی، جیسے کہ حبا خاتون کے گانے، جو خود بھی شاعری کرتی تھیں، بہت مجھے پسند آیا۔ سو اسی زمانے سے اس خواہش نے زور پکڑا کہ میں پاکستانی سامعین کے لیے کشمیری زبان میں گانا گاؤں۔‘

ماہا علی کے مطابق ان کی اس خواہش کی تکمیل 2019 میں ہوئی جب انہوں نے Acoustic Station کے ساتھ مل کر کشمیری اور اردو زبان میں گانا ’صاحبو‘ گایا ’جسے پاکستانی شائقین نے بہت پذیرائی بخشی۔‘

انہوں نے بتایا  کہ ’2015 سے میں کلاسیکل گائیکی سیکھ رہی ہوں اور ابھی بھی عبد اللہ ہارون میرے ٹرینر ہیں، اب میں غزلیں گانا چاہتی ہوں، مہدی حسن اور اختر بیگم کی غزلیں میری پسندیدہ ہیں تاہم میں ترجیح دیتی ہوں کہ خود گانا لکھوں اور گاؤں۔‘

اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں ماہا علی نے بتایا کہ ’ریاست اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ میرے پرنانا ہیں، میری نانی اماں لکھنئو سے تعلق رکھتی تھیں پھر وہ کلکتہ شفٹ ہوئیں اور اس کے بعد کراچی آ کر قیام پذیر ہوئیں۔ میں نے اپنی نانی سے واجد علی شاہ کے بہت قصے سن رکھے ہیں۔

’وہ بہت اچھے شاعر اور آرٹسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ کتھک سے بہت متاثر تھے اور اس کی ترویج کے لیے انہوں نے بہت کام کیا ہے سو مجھے لگتا ہے کہ آرٹ سے محبت وراثت میں ملی ہے۔‘

رقص سے لگاؤ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ’اس کا شوق مجھے بہت کم عمری سے تھا، اچھا نہ مانے جانے کے باوجود مجھے رقص سیکھنے کا بہت شوق تھا۔‘

’میں نے معروف کلاسیکل ڈانسر شیما کرمانی سے کتھک اور بھرت ناٹیئم سیکھا لیکن مجھے زیادہ پسند کتھک آیا۔ بعد ازاں میں نے پلوی شرما اور الائینا رائے سے کتھک ڈانس سیکھا۔

’میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ میں نے اپنی وراثت کو زندہ رکھا۔ کتھک چونکہ رقص ہے، کتھا کا مطلب ہے کہانی تو آپ رقص کے ذریعے کوئی بھی کہانی سنا سکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ افسوس ناک امر ہے کہ پاکستان میں کتھک کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں ہے نہ ہی ملک میں کتھک سکھانے والے زیادہ ادارے ہیں، اس کے مقابلے میں انڈیا میں نہ صرف کتھک سکھانے والے کئی ادارے موجود ہیں بلکہ وہاں پر اسے بہت پذیرائی بھی حاصل ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ پاکستان میں بھی لوگ کتھک سیکھیں اور اسے سمجھیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی