کیا تربوز کو واقعی لال رنگ کا انجیکشن لگایا جاتا ہے؟

افواہوں میں تیزی تب آگئی  جب ایک پاکستانی ڈاکٹر کی بھی سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوگئی جس میں وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان میں تربوز کو انجیکشن لگایا جاتا ہے جس سے مختلف قسم کی بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہے۔

پاکستان میں سوشل میڈیا پر گذشتہ کچھ دنوں سے افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ تربوز کو لال کرنے کے لیے خاص قسم کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے اور اس حوالے سے مختلف ویڈیوز بھی وائرل ہے۔

ان افواہوں میں تیزی تب آگئی  جب ایک پاکستانی ڈاکٹر کی بھی سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوگئی جس میں وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان میں تربوز کو انجیکشن لگایا جاتا ہے جس سے مختلف قسم کی بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہے۔

اسی معاملے کو گہرائی سے دیکھنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے کچھ ماہرین سے بات کی ہے اور ساتھ میں کچھ تحقیقی مقالوں کا مطالعہ بھی کیا ہے کہ مبینہ طور پر تربوز کو کس قسم کا انجیکشن لگایا جاتا ہے اور کیا واقعی پاکستان میں ایسا کیا جاتا ہے یا نہیں۔

یہ کس قسم کا انجیکشن ہے؟

افواہوں میں جس انجیکشن کی بات ہو رہی ہے، اس کا نام ایروتھروسین ہے جو ایک خاص قسم کا کھانے کے قابل رنگ ہے جو دنیا بھر میں مختلف خوراک کی چیزوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اسی فوڈ کلر کو انجیکشن میں ڈال کر تربوز کو لگایا کیا جاتا ہے، تاکہ وہ لال ہوسکے لیکن انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے اوپن سورس تفتیش میں ابھی تک ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔

تاہم صرف 2016  میں انگریزی اخبار دا نیوز کی ایک خبر میں ایک فروٹ فروش کے حوالے سے ضرور لکھا گیا ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ تربوز کو رنگ کا انجیکشن لگایا جاتا ہے۔

ایروتھروسین نامی فوڈ کلر مختلف میٹھی ٹافیوں، جیلی، مشروبات، آئس کریم، آئس بال،  کیک، پیسٹری سمیت مختلف بیکنگ اشیا میں رنگ کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس فوڈ کلر کو ’واٹر میلن کلر‘ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ کلر بالکل تربوز کی طرح لال ہوتا ہے۔

دا جرنل اف ٹراپیکل سائنسز میں پاکستان میں فوڈ کلر کے استعمال پر 2013 میں چھپے ایک مقالے کے مطابق تحقیق کیے گئے 56 فیصد نمونوں میں فوڈ کلر استعمال کیا گیا تھا جو انسانی صحت کے لیے قابل استعمال نہیں تھا۔

اسی تحقیق کے مطابق پاکستان میں ایروتھریسین کی ایک خاص مقدار کی اجازت ہے لیکن اس کو باقاعدہ طور پر لیبارٹری سے ٹیسٹ کیا جائے گا کہ واقعی اتنی مقدار میں استعمال ہوا ہے یا نہیں۔

ایرروتھریسین قانون کے مطابق تحقیقی مقالے میں لکھا گیا ہے کہ انسان کے فی کلو وزن کے حساب سے دو گرام تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یعنی اگر کسی کا وزن 50 کلو گرام ہے تو وہ روزانہ 50 گرام تک یہ استعمال کر سکتا ہے کیونکہ زیادہ استعمال سے تحقیقی مقالے کے مطابق انسانی جسم میں تھائرائڈ فنکشن متاثر ہو سکتا ہے۔

پاکستان پیور فوڈ رولز 1965 میں بھی ایروتھریسین کی ایک خاص مقدار کی اجازت دی گئی ہے لیکن اسی رولز میں لکھا گیا ہے کہ اس فوڈ کلر کو ڈسٹلڈ واٹر میں ملا کر کسی بھی خوراک میں شامل کیا جائے گا۔

تحقیقی مقالے میں لکھا گیا ہے کہ ہر ایک ملک میں خاص قسم کی فوڈ کلرز کی خوراک میں ایک خاص مقدار کی اجازت ہوتی ہے اور اس سے زیادہ استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔

مقالے کے مطابق، ’اگر درست مقدار میں فوڈ کلر کا استعمال کیا جائے تو یہ کم نقصان دہ یا نقصان دہ نہیں ہوتا لیکن زیادہ مقدار میں صحت کے لیے نقصان دہ ہے اور اسی وجہ سے پاکستان میں فوڈ کلرز کے استعمال کو ریگولرائزڈ کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ڈاکٹر غفران سید کراچی یونیورسٹی کے فوڈ سائنسز ڈپارٹمنٹ کے پروفیسر ہیں اور ان کے مطابق ابھی تک ان کے سامنے تربوز میں انجیکشن کا کوئی کیس سامنے نہیں آٰیا ہے۔

پروفیسر غفران سعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ تاثر ضرور ہے کہ تربوز کو ایروتھرسین کا انجکیشن لگایا جاتا ہے اور انڈیا میں ایسی رپورٹس سامنے آئی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ انجیکشن لگے تربوز کو آسانی سے معلوم کرنے میں تربوز کو تمام اطراف سے دیکھ کر اس میں اگر کوئی سراخ ہے، تو شبہ ہے کہ اس کو انجیکشن لگایا جاتا ہے۔

ڈاکٹر غفران نے بتایا، ’ایروتھروسین کا استعمال درست مقدار میں نقصان دہ نہیں ہے لیکن جس پانی میں اس کو ملا کر کسی بھی خوراک میں استعمال کیا جائے وہ خراب ہوسکتی ہے اور تربوز میں پانی زیادہ ہوتا ہے، تو اس سے جراثیم پھیلنے کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ایرتھروسین کے علاوہ لائکوفین کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ انجیکٹ کیا جاتا  لیکن لائکوپین ٹماٹر، اور تربوز میں قدرتی طور پر پایا جاتا ہے جو انسانی صحت کے لیے بہت اچھا ہے۔

ڈاکٹر غفران نے بتایا، ’لائکوفین کینسر کو روک دیتا ہے جبکہ دماغ کو تیز کرتا ہے اور بلڈ پریشر کو بھی کنٹرول کرتا ہے لیکن قدرتی اجزا کے علاوہ اگر تربوز میں باہر سے کوئی چیز انجیکٹ کی جاتی ہے، تو اس سے تربوز خراب ہو کر انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔‘

انجیکشن لگے تربوز کو کیسے پہچانیں؟

اسی حوالے سے گذشتہ سال انڈیا کی فوڈ سیفٹی اتھارٹی نے ایک آگاہی ویڈیو جاری کی تھی جس میں دکھایا گیا ہے کہ تربوز کو کاٹ کر ٹشو پیپر لگایا جائے اور وہ لال ہوجائے تو سمجھ جائیں اس کو انجیکشن لگایا گیا ہے۔

اسی طرح ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ اگر ٹشو صرف گیلا ہوگیا اور لال نہیں ہوا ہے تو یہ تربوز ٹھیک ہوگا اور ملاوٹ والا نہیں ہوگا۔

ڈاکٹر غفران انجیکشن لگے تربوز کو پہنچانے کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اچھے تربوز کی پہچان یہ بھی ہے کہ پکا ہوا تربوز ایک جگہ پر زرد رنگ کا ہوگا جبکہ پکے تربوز کو تھپکی لگانے سے گونج پیدا ہوگی۔

ڈاکٹر عبدالستار خیبر پختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال اتھارٹی میں ڈائریکٹر ٹیکنیکل ہے اور ان کے مطابق: ’ایسا کوئی کیس ہمیں رپورٹ نہیں ہوا ہے کہ تربوز کو انجیکشن لگایا گیا ہ۔‘

انہوں نے بتایا، ’ٹک ٹاک ویڈیوز تشہیرکے لیے بنائی جاتی ہیں لیکن ہمیں کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے لیکن ہو سکتا ہے ایک آدھ جگہ پر استعمال کیا گیا ہو لیکن اس کا استعمال عام نہیں ہے۔‘

عبدالستار نے بتایا کہ ’تربوز کو انجیکشن لگانے کے معاملے پر ہم نے جدید مشینری کا بندوبست کیا تو ہے لیکن ابھی بھی ہم کچھ سادہ ٹیسٹ کر سکتے ہیں جس سے پتہ لگایا جا سکتا ہے تاہم خیبر پختونخوا میں ایروتھریسین کا استعمال ممنوع ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان