تربوز کی تجارت میں ایران کو 17 لاکھ ڈالر کا نقصان

کسٹم ڈیوٹی میں اضافے کے بعد ترکی کی جانب سے ایران کو واپس بھیجی گئی تربوزوں کی دو کھیپیں سات ہزار ٹن سے زیادہ وزن کی ہیں اور ان کی قیمت 17 لاکھ ڈالر سے زیادہ بنتی ہے۔

(ارنا)

حالیہ مہینوں میں ایرانی تربوزوں کی کئی کھیپیں واپس کر دی گئی ہیں جو  برآمد کرنے کے لیے ہمسایہ ملکوں کو بھجوائی گئی تھیں۔

تربوز کے ایرانی کاشت کاروں کو کئی سال سے ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے جو اپنی فصل فروخت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوتے ہیں لیکن ایسا نہ ہونے سے اُن کی فصل خراب ہو جاتی یا مویشیوں کا چارہ بن جاتی ہے۔

میڈیا اطلاعات کے مطابق اس سال موسم بہار میں ترکی نے کسٹمز ٹیرف میں اضافے کی وجہ سے ایرانی تربوز واپس بھیجے۔

ترکی موسم بہار کے آغاز سے اندرون ملک تربوز کاشت کر رہا ہے۔ تربوزوں کی آخری کھیپ ترکی میں پہنچنے سے 10 روز پہلے ایران سے درآمد کیے جانے والے تربوزوں پر کسٹم ڈیوٹی فی ٹن سو ڈالر سے بڑھا کر تین سو ڈالر کر دی گئی۔

ایران کو واپس بھیجے گئے سات ہزار ٹن تربوز کسٹم ڈیوٹی میں اضافے سے پہلے  برآمد کیے گئے تھے۔ ترکی نے خود گذشتہ ماہ چار ہزار ٹن تربوز یورپی ملکوں کو برآمد کئے تھے۔

گذشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر'ایرانی ٹماٹر'کے نام بنائے گئے ایک پیج پر ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی تھی جس کا عنوان تھا کہ ترکی نے گلے سڑے ایرانی تربوز سرحد پر ہی تلف کر دیے۔

ترکی سے ایرانی تربوزوں کی واپسی کی خبر کے تھوڑی دیر بعد ہی ایران میں نیشنل یونین آف ایگریکلچر پروڈکٹس نے ترکی کی معاشی سفارت کاری پر تنقید کی اور کہا کہ یک طرفہ اقتصادی ضوابط کے نفاذ کی وجہ سے ترکی کو برآمد کیے گئے تربوزوں کی دو سو کھیپیں ایران کو واپس بھجوا کر دی گئیں۔

کسٹم ڈیوٹی سو ڈالر سے تین سو ڈالر فی ٹن کر کے اس میں دو سو فیصد اضافہ کیا گیا جس سے برآمدکنندگان بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایران کو  واپس بھیجی گئی تربوزوں کی دو کھیپیں سات ہزار ٹن  سے زیادہ وزن کی ہیں اور ان کی قیمت 17 لاکھ ڈالر سے زیادہ بنتی ہے۔ زیادہ دیر تک ٹرین پر لدے  رہنے سے زیادہ تر تربوز خراب ہو گئے جس پر انہیں ضائع کر دیا گیا۔

تربوزوں کی ایک فصل کی تیاری پر پانی کی بڑی مقدارصرف ہوتی ہے۔ ملک میں جاری خشک سالی کی وجہ سے ایک اور بڑا معاشی نقصان ہے۔

ایران ترکی مشترکہ تجارتی کونسل کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ ایرانی تربوزوں کی ترکی برآمد روکنے کی وجہ کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کی وجہ سے سرحدیں بند کرنا اور ترکی میں میں کاشت کے سیزن کا آغاز تھا۔

جس کی وجہ سے کم ازکم گذشتہ دہائی کے دوران ہر سال تربوزوں کی قیمت اور ٹیرف میں کمی ہوئی ہے۔ ایرانی مصنوعات خاص طور پر تربوزوں کے ساتھ بھی یہی مسئلہ درپیش ہے۔

تین برس قبل عمان نے بھی تین سو ٹن ایرانی توبوز واپس بھیج دیئے تھے۔ اس اقدام کی وجہ کیڑے مار ادویات کا زیادہ استعمال بنائی گئی تھی۔ تاہم ایرانی وزارت زراعت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔

ایک خبر یہ بھی ہے کہ تربوز برآمد کرنے کے لیے ان میں رنگ کا ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ وہ صحت مند نہیں ہوتے نہ دھوپ میں پک کر تیار ہوتے ہیں۔ زرعی زمین کو گندے پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔ یہی وجوہات ہیں جو پھلوں اور خاص طور پر ایرانی تربوزوں کی برآمد میں رکاوٹ بنیں۔

ایران کی پلانٹ پروٹیکشن آرگنائزیشن نے کہا ہے کہ برآمد کئے جانے والے تربوزوں کو ادارے کی طرف سے معیار کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا