صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں پولیس اور مقامی افراد کا کہنا ہے کہ زمین کے تنازعے پر دو گرہووں کے درمیان اتوار کو ’فائر بندی‘ پر اتفاق کے باوجود پیر کو بعض علاقوں میں جھڑپیں ہوئیں جبکہ انٹرنیٹ سروس بدستور بند ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال پاڑہ چنار کے سربراہ ڈاکٹر سید میر حسن جان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اب تک 32 اموات رپورٹ ہوئیں جبکہ 32 زخمی زیر علاج ہیں۔‘
انہوں نے بتایا ’مجموعی طور کشیدگی کی وجہ سے زخمیوں کی تعداد 200 سے زائد ہے۔‘
بین الاقوامی اور مقامی میڈیا نے جھڑپوں میں اموات کی تعداد پیر کو کم از کم 42 رپورٹ کی ہے لیکن ضلع کرم میں حکام نے اس تعداد کی تصدیق نہیں کی۔
پاڑہ چنار پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او اشتیاق حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فائربندی کے فیصلے پر اتوار کو اتفاق ہوا تھا اور ’جن مقامات پر معمومی مسائل ہیں، اس کو حل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔‘
کرم کے علاقے بوشہرہ جہاں سے حالیہ جھڑپوں کا آغاز ہوا، کے رہائشی حمزہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بوشہرہ اور ملی خیل کے مابین فائر بندی کے اعلان کے بعد مورچے خالی کرائے گئے تاہم ’پیواڑ، پاڑہ چمکنی، خار اور بالش خیل کے علاقوں میں چند مقامات پر جھڑپیں ہوئی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اب سے کچھ دیر پہلے بھی صدا کے علاقے میں کچھ میزائل داغے گئے ہیں۔ فائر بندی کا اعلان تو کیا گیا ہے لیکن بعض مقامات پر حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔‘
کرم کے علاقے صدا سے تعلق رکھنے والے محمد جمیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’انٹرنیٹ گذشتہ چار دنوں سے بند ہے اور ابھی تک فائر بندی کے فیصلے کے بعد بھی انٹرنیٹ سروس بحال نہیں ہوئی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’انٹرنیٹ کی بندش سے لوگوں کو مشکلات درپیش ہیں کیونکہ علاقے کا رابطہ ملک سے منقطع ہو چکا ہے۔‘
جمیل کے مطابق: ’کرم کے مختلف علاقوں کے لوگ بیرون ملک مزدوری کے غرض سے جاتے ہیں، ان کا بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ رابطہ نہیں ہو پا رہا۔
’مرکزی شاہراہیں اب بھی بند ہیں اور کشیدگی والے علاقوں میں نقل و حرکت کم ہے لیکن گذشتہ دنوں کے مقابلے میں حالات اب معمول پر ہیں۔‘
’بسکٹ پر گزارا کر رہے ہیں‘
ٹل تا پاڑہ چنار کرم کی مرکزی شاہراہ ہے اور یہ شاہراہ کرم میں کشیدگی کی وجہ سے گذشتہ چار دنوں سے بند ہے جس سے سامان اور اشیا خوردو نوش کی ترسیل میں مسائل کا سامنا ہے۔
محمد اسلام دس ویلر ٹرک کے ڈرائیور ہیں اور گذشتہ تین دنوں سے ٹل پاڑہ چنار روڈ کی بندش سے سڑک پر سامان سمیت پھنسے ہوئے ہیں۔
انہوں نے فون پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم چار دنوں سے چینی، آٹا، چاول اور دیگر سامان گاڑی میں لاد کر یہاں پہنچے ہیں لیکن بندش سے پھنس گئے ہیں۔‘
محمد اسلام نے بتایا ’ہمارے پاس کھانے پینے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے اور روڈ پر موجود دکانوں سے بسکٹ خرید کر گزارا کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ضلع کرم کے صدر مقام پاڑہ چنار کا نواحی علاقہ بوشہرہ بظاہر خیبر پختونخوا کے کسی عام پہاڑی علاقے جیسا ہی ہے لیکن یہاں واقع زمین کا ایک ٹکڑا ایسا ہے جس پر تنازعے نے اب تک درجنوں افراد کی جان لے لی ہے۔
30 جریب یعنی اندازاً 100 کنال زمین کی ملکیت کا تنازع بوشہرہ کے دو دیہات میں مقیم قبائل کے درمیان ہے اور حکام کے مطابق یہاں چھ دن قبل شروع ہونے والا تصادم کرم ضلع کے مختلف علاقوں تک پھیل گیا ہے۔
اتوار کو حکام نے بتایا کہ پانچ روزہ تصادم کے بعد بوشہرہ میں فریقین کے درمیان اتوار کو فائر بندی پر اتفاق ہوا تھا اور مورچے خالی کروا کر وہاں پر پولیس، ایف سی اور فوج کے جوانوں کو تعینات کر دیا گیا۔
خیبر پختونخوا کا ضلع کرم افغانستان کی سرحد پر واقع ہے۔ اس سے قبل ضلع کرم میں 2007 میں شروع ہونے والا ایک بڑا تنازع کئی سالوں تک جاری رہا تھا اور 2011 میں قبائلی عمائدین کی جرگے کی مدد سے اسے ختم کر دیا گیا۔
گذشتہ سال ہی محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا نے کرم کے زمینی تنازعات پر ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق ضلع کرم میں آٹھ مقامات پر زمینی تنازعات ہیں اور یہ تنازعات نئے نہیں بلکہ تقسیم ہند کے وقت سے موجود ہیں۔
ان تنازعات کے حل کے لیے ایک حکومتی کمیشن بھی بنایا گیا ہے لیکن علاقہ مکینوں کے مطابق کمیشن تنازعات کے حل میں سنجیدہ نہیں ہے اور آئے روز اس طرح کی جھڑپیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔