افغان طالبان نے جمعے کو بتایا کہ مسلح افراد نے وسطی افغانستان کے علاقے میں 14 افراد کو قتل کر دیا۔ اس حملے میں مزید چھ افراد زخمی بھی ہوئے۔
یہ واقعہ رواں سال ملک میں ہونے والے سب سے زیادہ خونریز حملوں میں سے ایک ہے۔ شدت پسند گروہ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
طالبان نے جمعرات کو ہونے والے اس حملے کی تصدیق کی ہے جس میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ لوگ صوبہ غور اور دائی کندی کے درمیان سفر کر رہے تھے۔ داعش کے مطابق اس حملے میں مشین گن کا استعمال کیا گیا۔
گروپ نے دعویٰ ہے کہ حملے میں اس سے زیادہ لوگوں کی جان گئی جو تعداد طالبان نے بتائی۔
ایرانی خبر رساں ادارے ارنا نے ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی کے حوالے سے کہا کہ داعش نے عراق میں مزارات کی زیارت کے بعد واپس آنے والے افغانوں کا استقبال کرنے والوں کو نشانہ بنایا۔
ترجمان نے اس جرم کے مرتکب افراد کو سزا دینے کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔
افغانستان میں داعش کا علاقائی دھڑا، جو طالبان کا بڑا حریف ہے، گذشتہ تین سال میں سکولوں، ہسپتالوں، مساجد اور شیعہ علاقوں پر حملے کر کے حکام کی داخلی سلامتی پر گرفت کو چیلنج کرتا آیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
طالبان کے چیف ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے جمعرات کے ’وحشیانہ عمل‘ کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکام عوام اور ان کی املاک کی حفاظت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم مجرموں کی تلاش اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کی بھی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔‘
اقوام متحدہ کے افغانستان مشن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ ’اس حملے کے نتیجے میں شیعہ برادری کے افراد کی جانیں گئیں اور کئی افراد زخمی ہوئے۔
’ہم متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کرتے ہیں اور اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔‘
قبل ازیں رواں ماہ کابل میں داعش سے تعلق رکھنے والے خودکش بمبار نے پراسیکیوٹر کے دفتر میں بارودی مواد سے بھری جیکٹ کی مدد سے دھماکہ کیا۔
مئی میں شمال مشرقی صوبہ بدخشاں میں بم کا دھماکہ ہوا جو موٹر سائیکل پر نصب تھا۔ دھماکے میں وہ پولیس اہلکار مارے گئے جو پوست کی کاشت کے خلاف مہم کا حصہ تھے۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے مقرر کردہ انسانی حقوق کے ماہر رچرڈ بینیٹ نے کہا کہ وہ داعش کے حملوں کے سلسلے سے خوفزدہ ہیں۔
بنیٹ، جنہیں طالبان نے افغانستان میں داخل ہونے سے روک دیا ہے، نے کہا کہ ’ہزارہ اہل تشیع کا اندوہناک قتل بین الاقوامی جرائم میں شامل ہے۔‘