اقوام متحدہ کے ترجمان نے ہفتے کو کہا ہے کہ عالمی ادارہ افغان طالبان سمیت افغانستان میں تمام فریقوں کے ساتھ رابطے جاری رکھے گا۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن ڈوجارک نے افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن اور اس کی سربراہ روزا اوتنابائیوا کا دفاع کیا جنہوں نے کہا تھا کہ نئے قوانین افغانستان کے مستقبل کی ’پریشان کن تصویر‘ پیش کرتے ہیں۔
افغانستان میں طالبان انتظامیہ نے خواتین پر پابندی عائد کر دی ہے کہ انہیں گھر سے باہر نکلنے کے بعد چہرہ ڈھانپنا ہو گا اور ان کی آواز سنائی نہیں دینی چاہیے۔
اقوام متحدہ مشن نے یہ پابندی لگانے پر طالبان کو تنقید کا نشانہ بنایا جس کے بعد طالبان نے اس کے ساتھ روابط ختم کر دیے تھے۔
اوتنابائیوا نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ان قوانین کے ذریعے خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر ’پہلے سے ناقابل برداشت پابندیوں‘ میں اضافہ کیا گیا ہے اور گھر سے باہر ’خواتین کی آواز کو بھی‘ بظاہر اخلاقی قوانین کی خلاف ورزی سمجھا جا رہا ہے۔
یہ قوانین طالبان سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کی منظوری کے بعد نافذ کیے گئے۔ طالبان نے 2021 میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد ’نیکی کی تبلیغ اور برائی کی روک تھام‘ کی وزارت قائم کی تھی۔
طالبان کا موقف ہے کہ نئے قوانین شرعی قوانین کی تشریح پر مبنی ہیں۔
وزارت امربالمعروف و نہی عن المنکر نے بین الاقوامی تنظیموں، ممالک اور افراد پر زور دیا کہ وہ مسلمانوں کی مذہبی اقدار کا احترام کریں۔
وزارت نے جمعے کو اعلان کیا کہ وہ نئے قوانین پر تنقید کی وجہ سے اقوام متحدہ کے امدادی مشن کے ساتھ مزید تعاون نہیں کرے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیویارک میں پریس کانفرنس میں ڈوجارک کا کہنا تھا کہ ’ہم افغانستان میں خواتین کی موجودگی کو تقریباً ختم کرنے کے فیصلے پر بہت آواز بلند کرتے رہے ہیں۔ حقیقی حکام کے ساتھ روابط کے حوالے سے میرا مطلب یہ ہے کہ ہم طالبان سمیت افغانستان کے تمام فریقوں کے ساتھ رابطے جاری رکھیں گے۔‘
ان کے مطابق: ’ہم نے ہمیشہ اپنے دائرہ اختیار کے تحت ایسا کیا ہے اور میں غیر جانبدارانہ طور اور نیک نیتی سے کہوں گا کہ ہمیشہ اقوام متحدہ کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے انسانی حقوق اور مساوات کے پیغام کو آگے بڑھایا جائے۔
’ہم سلامتی کونسل کی جانب سے دیے گئے اختیارات کے مطابق اپنا کام جاری رکھیں گے۔‘
25 اگست کو افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے کہا تھا کہ اسے حال ہی میں طالبان حکام کی جانب سے منظور کیے گئے اخلاقی قانون پر ’تشویش‘ ہے، جس میں خاص طور پر خواتین پر نئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
اس سے قبل طالبان نے گذشتہ بدھ کو ’شریعت‘ کے تحت عمومی رویوں اور طرز زندگی پر پابندیوں کے بارے میں 35 شقوں کے ساتھ ایک قانون کی تشکیل کا اعلان کیا تھا۔
قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں زبانی خبردار کرنے سے لے کر انتباہ جاری کرنے، جرمانے اور مختلف عرصے تک قید کی سزائیں متعین کی گئی ہیں، جو وزارت امر بالمعروف، نہی عن المنکر کے تحت کام کرنے والی اخلاقی پولیس انجام دیں گی۔