امریکی صدر جو بائیڈن نے 2022 میں ڈرون حملے میں القاعدہ رہنما کی موت کا ذکر کرتے ہوئے اسے نائن الیون کے متاثرہ خاندانوں کے لیے معاملے کے ’خاتمے‘ کا لمحہ قرار دیا تھا۔
ایمن الظواہری جنہوں نے اسامہ بن لادن کی جگہ لی اور جو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کی منصوبہ بندی میں براہ راست شریک تھے، ان کی کابل کے ایک مکان میں موجودگی کا پتہ لگایا گیا۔ ایسا ایک اور عسکریت پسند گروپ طالبان کے دارالحکومت کابل کا انتظام سنبھالنے کے تقریباً ایک سال بعد ہوا۔
اتحادی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان کو طالبان کے قبضے میں آئے اب تین سال ہو چکے ہیں۔ گذشتہ ہفتے طالبان نے اس کامیابی پر خوشی کے اظہار کے لیے پریڈ کی اور اس امریکی فوجی سازوسامان کی نمائش کی جو بگرام ایئر بیس پر ان کے ہاتھ لگا۔ طالبان اب اس اسلحے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
جلدبازی میں کیے گئے انخلا سے قبل بگرام وہ آخری مقام تھا جہاں امریکی فوجی موجود تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ الظواہری کی کابل میں موجودگی غیر متوقع نہیں تو اہم ضرور تھی اور ان کی موت کے بعد القاعدہ کے اندر بہت سی سینیئر شخصیات نے افغانستان منتقل ہونے میں ان کی پیروی کی۔ انہیں وہاں ایسا ماحول ملا جس میں وہ ملک کے طالبان حکمرانوں کی کم سے کم مداخلت کے ساتھ اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔
نائن الیون کے حملے کروانے کی صلاحیت رکھنے والی تنظیم کے مقابلے میں آج القاعدہ بہت کمزور ہو چکی ہے۔ تازہ خفیہ امریکی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ خطے میں داعش جیسی تنظیموں کے مقابلے میں کم خطرہ ہے۔
اس کے باوجود اس کے نئے سرغنے سیف العدل جو دھماکہ خیز مواد تیار کرنے کے ماہر ہیں، ایران میں مقیم ہیں۔ وہ ایف بی آئی کو سب سے زیادہ مطلوب دہشت گرد ہیں جن کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر ہے۔
اگست 2021 میں سقوط کابل تک نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی کے سربراہ کی حیثیت سے افغانستان کی خفیہ کارروائیاں کروانے والے احمد ضیا سراج نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان نے بچی کھچی القاعدہ کو غیر اعلانیہ اتحاد میں شامل کر لیا ہے اور دونوں گروپوں کے رہنما باقاعدگی سے دارالحکومت میں بات چیت کر رہے ہیں۔
2017 اور 2018 کے درمیان ضیا سراج نے القاعدہ کے کارندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی قیادت کی جس میں چار سو سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا۔ ضیا سراج کا کہنا ہے کہ حراست میں لیے گئے افراد نے پوچھ گچھ کے دوران مغرب کو نشانہ بنانے کے جاری منصوبوں کے بارے میں بتایا۔
یہ منصوبے وہ سینکڑوں کمانڈر اور جنگجو بنا رہے تھے جو اب بھی چھپے ہوئے تھے۔
ضیا سراج اب کنگز کالج لندن میں شعبہ جنگی مطالعے کے وزیٹنگ پروفیسر ہیں۔ انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’(طالبان کے) کے ہر شے پر قبضے کے فوری بعد القاعدہ ارکان اپنے خاندانوں کو افغانستان میں لے آئے۔ اس کی سب سے بڑی مثال الظواہری تھے۔ (جب) وہ کابل میں تھے اور میرے سننے میں آیا کہ ان میں سے بہت سے لوگ اپنے خاندانوں کو (افغانستان) واپس لے آئے ہیں۔
’اور کیوں نہ لاتے؟ یہ زمین پر ان کے لیے محفوظ ترین مقام ہے۔ وہ محض دہشت گرد گروپ نہیں بلکہ ان کے خاندان ہیں جنہوں نے آپس میں شادیاں کر رکھی ہیں۔‘
15 اگست 2021 کو افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان نے نہ صرف خواتین کے حقوق، سکول اور کام کی جگہ تک رسائی ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں بلکہ عمومی طور پر پر رسمی تعلیم تک رسائی کے مواقعے بھی کم کیے ہیں۔
اس کی وجہ سے لاکھوں بچوں اور نوجوانوں کے انتہا پسند گروپوں میں بھرتی ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ ملک بھر میں بڑی تعداد میں ہتھیار موجود ہیں جو دو دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کا نتیجہ ہیں۔
ضیا سراج کے مطابق: ’اب افغانستان ان کے موجودگی کے معاملے میں ان کے لیے بہت پرکشش جگہ ہے۔ ان کی اپنی دنیا۔‘
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اسامہ بن لادن کے بھائی عبداللہ بن لادن اور نامعلوم تعداد میں ان کے بیٹے ان افراد میں شامل ہیں جو طالبان کے قبضے کے بعد افغانستان واپس آئے ہیں۔ یہ رپورٹ تھری سٹار جنرل، لیفٹیننٹ جنرل سمیع سادات نے مرتب کی جو نیٹو کے اتحادی اشرف غنی انتظامیہ کے خاتمے سے قبل افغان نیشنل آرمی میں ڈپٹی چیف آف جنرل سٹاف تھے۔
رپورٹ کے مطابق: ’گذشتہ 26 برسوں کے دوران طالبان القاعدہ کو قائم رکھنے، بن لادن اور الظواہری جیسے رہنماؤں کو تحفظ فراہم کرنے اور افغانستان میں عبداللہ بن لادن جیسے دہشت گرد رہنماؤں کی اگلی نسل کی پرورش کرنے والی بنیادی طاقت رہے ہیں۔‘
سادات کا دعویٰ ہے کہ طالبان حکومت کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ فتح اللہ منصور نئی حکومت میں القاعدہ کے ساتھ رابطے کا اہم ذریعہ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وہ شخص ہے جو اسامہ بن لادن کے اہل خانہ سمیت القاعدہ کے سینیئر رہنماؤں کے افغانستان بھر میں قیام اور سفر کے وقت، مقام اور راستے کی منظوری دیتے ہیں۔
سادات اور ضیا سراج دونوں کئی سال تک طالبان کے خلاف لڑتے رہے ہیں اور اب بیرون ملک ہیں۔ ان کے دعووں کی موقعے پر جا کر ایسے ماحول میں تصدیق کرنا مشکل ہے جس پر طالبان کی سخت گرفت ہے۔ لیکن وہ دونوں لوگ ایک ہی نکتے پر زور دیتے ہیں کہ مغرب نے افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر سے توجہ ہٹا دی ہے۔
اس کے بعد سے یوکرین اور غزہ میں جنگیں شروع ہو چکی ہیں۔ ضیا سراج نے خبردار کیا کہ ’افغانستان میں تمام سرگرمیوں کے پیش نظر، یہ بہت خطرناک سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔‘
افغانستان کی سیٹلائٹ تصاویر اور زمینی رپورٹس پر نظر رکھنے والے جرمنی میں مقیم اوپن سورس انٹیلی جنس ریسرچر قیس علم دار کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ جاننا ناممکن ہے کہ اب افغانستان میں القاعدہ کے کتنے جنگجو سرگرم ہیں لیکن طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد سے اس گروپ سے لاحق خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔
قیس علم دار کا کہنا ہے کہ القاعدہ کے لیے نئے سرے سے قدم جمانے کے لیے سب سے زیادہ قابل قبول مقامات قندھار، غزنی، وردک اور لوگر کے پہاڑی صوبے ہیں۔ ’یہ صوبے گذشتہ چند سال کے دوران طالبان کے مضبوط گڑھ بھی رہ چکے ہیں۔ ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں ان مقامات پر بہت زیادہ ڈرون حملے ہوئے۔‘
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’یہ افغانستان کے وہ حصے بھی ہیں جہاں افغانستان کی سابق حکومت اور امریکہ کے خلاف جذبات بہت سخت ہیں۔ وہاں امریکہ اور مغرب مخالف جذبات بہت سخت ہیں۔ یہاں تک کہ ماضی میں بھی سابق حکومت کے پاس صرف چند اضلاع پر کنٹرول تھا۔ ان علاقوں میں پورے صوبوں پر نہیں۔ وہ کابل کے قریب بھی ہیں۔ ان صوبوں میں سے ہر ایک کابل سے صرف دو گھنٹے کی مسافت پر ہے۔‘
اس سال جون میں ایران میں مقیم القاعدہ رہنما سیف العدل نے تنظیم میں بھرتی کے لیے اعلان عام کیا۔ انہوں نے مغربی مفادات پر ’حملہ‘ کرنے کی خواہش رکھنے والے کسی بھی جنگجو کو افغانستان آنے کی دعوت دی۔ یہ ایسا موقع تھا جب مغربی ملکوں کو بیدار ہونا چاہیے تھا۔
اگست 2021 تک امریکی سفارت خانے میں خدمات انجام دینے والے پبلک ڈپلومیسی اور بین الاقوامی سلامتی کے ماہر صادق امینی کا کہنا ہے کہ ’انہوں نے اپنے تمام جنگجوؤں اور ان سے وابستہ تمام افراد اور ان کے تمام حامیوں کو افغانستان آنے کی کھلی دعوت دی۔‘
’وہ افغانستان آئیں کہ تاکہ انہیں انہیں امریکہ اور خطے میں اس کے مفادات پر حملوں کی تربیت اور منصوبہ بندی کے لیے تیار کیا جا سکے۔
واشنگٹن ڈی سی میں آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے نان ریزیڈنٹ فیلو کا کہنا ہے کہ ’ایسی دعوت دینا طالبان کے اعلی ترین رہنما ہبت اللہ اخندزادہ کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کے کے لیے (اس کے بغیر) کھلی دعوت دینا ممکن نہ ہوتا۔‘
مزاحمتی جنگجو جو افغانستان میں طالبان حکومت کی مخالفت جاری رکھے ہوئے ہیں، کچھ عرصے سے متنبہ کر رہے ہیں کہ اگر ملک میں دہشت گرد گروپوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا گیا تو مغرب پر نائن الیون طرز کے حملے دوبارہ کیے جائیں گے۔
جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے احمد مسعود کی قیادت میں قومی مزاحمتی محاذ یورپ اور امریکہ میں عالمی رہنماؤں کے پاس جا رہا ہے تاکہ افغان صوبوں میں پیدا ہونے والے خطرے سے خبردار کیا جا سکے۔
این آر ایف (قومی مزاحمتی محاذ) کے شعبہ خارجہ تعلقات کے سربراہ علی میثم نظری نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ یہ انتباہ ’محض خالی خولی باتیں اور کھوکھلے الفاظ نہیں بلکہ مغربی رہنماؤں کے لیے حقیقی انتباہ ہیں۔‘
ان کے بقول: ’یہ خفیہ اطلاعات اور قابل اعتماد معلومات پر مبنی ہیں جو ہمارے پاس عملی طور پر موجود ہیں اور ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ یہ صرف القاعدہ ہی نہیں بلکہ افغانستان کے کھیل میدان میں مختلف گروپ موجود ہیں۔ ہمارا اندازہ ہے کہ 21 چھوٹے، علاقائی اور بین الاقوامی دہشت گرد نیٹ ورکس موجود ہیں جو اگست 2021 سے خود کو تشکیل دے رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی محکمہ خارجہ کے نگران ادارے کو گذشتہ ماہ پتہ چلا کہ جانچ پڑتال کی ناکامیوں کی وجہ سے گذشتہ تین سال میں 29 کرور 30 لاکھ ڈالر کے امریکی امدادی فنڈز طالبان کے ہاتھوں میں چلے گئے۔
یہ رقم 2.8 ارب ڈالر کی مجموعی انسانی امداد میں شامل ہے جو امریکہ نے افغانستان کے عوام کی مدد کے لیے جاری رکھی ہوئی ہے۔
این آر ایف نے امریکی حکومت کو ایک درخواست بھیجی ہے جس میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس وقت تک امدادی فنڈنگ روک دے جب تک کہ اس بات کی ضمانت نہ مل جائے کہ اس سے طالبان حکومت کو فائدہ نہیں ہو رہا۔
امریکی بحریہ کے سابق افسر شان ریان این آر ایف کی درخواست امریکی حکومت کو پہنچا رہے ہیں۔ درخواست پر دو لاکھ 72 ہزار سے زیادہ دستخط موجود ہیں اور اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ احمد مسعود کو امریکی انخلا کے بعد افغانستان کی زمینی صورت حال کے بارے میں کانگریس کے سامنے گواہی دینے کا موقع دیا جائے۔
ریان نے دی انڈینڈنٹ کو بتایا کہ ’امریکہ کے سابق فوجیوں نے افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ میں 20 سال سے زیادہ وقت گزارا جو اس جنگ کا مرکزی مقام تھا۔ اور اب ہم محض چند سال بعد عملی طور پر انہیں دہشت گردوں کو فنڈ دے رہے ہیں جن کے خلاف ہم نے دو دہائیوں تک جنگ کی۔‘
’جب القاعدہ نے نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے لیے رقم دی، بن لادن نے اس کام پر پانچ لاکھ ڈالر خرچ کیے۔‘
امریکہ خفیہ ادارے کے سابق ٹھیکے دار نے مزید کہا کہ ’ذرا سوچیں کہ نائن الیون کے حملوں کے لیے استعمال ہونے والے پانچ لاکھ ڈالر کے مقابلے میں دو دہشت گرد گروپ 29 کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی مدد کیا کر سکتے ہیں۔‘
© The Independent