امریکی صدر نے القاعدہ سے متعلق حقیقت تسلیم کر لی: افغان طالبان

صدر بائیڈن نے پریس کانفرنس سے واپسی پر ایک رپورٹر کے سوال پر جواب دیا کہ انہوں نے پہلے ہی کہا تھا کہ ’القاعدہ افغانستان میں نہیں رہے گی۔‘

صدر بائیڈن 30 جون، 2023 کو واشنگٹن میں میڈیا سے گفتگو کے بعد واپس جا رہے ہیں (اے ایف پی)

 

افغانستان کی طالبان حکومت نے ہفتے کو امریکی صدر جوبائیڈن کے ایک بے ساختہ جملے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اس دعوے پر زور دیا ہے کہ القاعدہ افغانستان میں کوئی خطرہ نہیں رہا۔
صدر بائیڈن جمعے کو امریکی سپریم کورٹ کی طرف سے طلبہ پر قرضے کا بوجھ کم کرنے سے متعلق پروگرام کو روکنے کے فیصلے پر پریس کانفرنس کے بعد جا رہے تھے کہ ایک صحافی نے ان سے سوال کیا کہ آیا انہوں نے 2021 میں افغانستان سے انخلا کے دوران غلطیوں کا اعتراف کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ٹرانسکرپٹ کے مطابق سوال کے جواب میں بائیڈن کا کہنا تھا کہ ’نہیں۔ تمام شواہد آ رہے ہیں۔‘ 
’کیا آپ کو یاد ہے کہ میں نے افغانستان کے بارے میں کیا کہا تھا؟ میں نے کہا تھا کہ القاعدہ نہیں رہے گی۔ میں نے کہا کہ یہ وہاں نہیں ہوگی۔ میں نے کہا کہ ہم طالبان سے مدد لیں گے۔ اب کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہو رہا ہے؟ اپنے اخبارات پڑھیں۔ میری بات ٹھیک تھی۔‘
یہ سوال جمعے کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں اٹھایا گیا جس میں کہا گیا کہ امریکی حکام کو 2021 میں افغانستان سے بڑے پیمانے پر انخلا کے دوران واضح فیصلہ سازی کی کمی، مرکزی بحران سے نمٹنے کے طریقہ کار کی عدم موجودگی اور عوامی پیغامات کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
کارروائی کے بعد اس کے نام نہاد جائزے کا حکم وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کابل میں افراتفری کے مناظر پر غم و غصے کے بعد دیا جب کہ 20 سالہ امریکی فوجی موجودگی کے اختتام پر طالبان جنگجوؤں نے ملک کا انتظام سنبھال لیا تھا۔
ہفتے کو افغان وزارت خارجہ نے بائیڈن کے تبصرے کا فائدہ اٹھایا۔ افغان وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ’ہم امریکی صدر بائیڈن کے افغانستان میں مسلح گروپوں کے نہ ہونے کے جملوں کو حقیقت کا اعتراف سمجھتے ہیں۔‘
’ان سے اقوام متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی حالیہ رپورٹ کی تردید ہوتی ہے جس میں افغانستان میں 20 سے زائد مسلح گروپوں کی موجودگی اور آپریشن کا الزام لگایا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مئی میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایسے اشارے ملے ہیں کہ القاعدہ جیسے مسلح گروپ ملک میں دوبارہ جڑ پکڑ رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ’طالبان، القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان تعلق مضبوط اور اس وقت قائم  ہے۔
’حقیقی حکام کے ماتحت بہت سے دہشت گرد گروپوں کو کارروائی کی زیادہ آزادی حاصل ہے۔ وہ اس کا اچھا استعمال کر رہے ہیں اور افغانستان اور خطے دونوں میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔‘
افغانستان کے طالبان حکمرانوں کا اصرار ہے کہ وہ ملک کی سرزمین کو دیگر ممالک کے خلاف سازش کرنے والے مسلح گروہوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ القاعدہ کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں۔
انہوں نے گذشتہ سال وسطی کابل میں امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی موت کو تسلیم نہیں کیا اور کہا کہ اس واقعے کی تحقیقات جاری ہے۔
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا