اقوام متحدہ کی رپورٹ سے القاعدہ ایران اتحاد کا انکشاف

اقوام متحدہ کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ سیف العدل سرکاری طور پر تہران کے ایک گھر میں نظربند تھے لیکن انہیں تقریباً 2010 سے پاکستان کا سفر کرنے اور القاعدہ کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کرنے کی آزادی دی گئی۔

اس تصویر میں القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن، ان کے جانشین ڈاکٹر ایمن الظواہری اور درپردہ سربراہ سیف العدل دکھائی دے رہے ہیں (اے ایف پی)

دہشت گرد گروپ کے ’ڈی فیکٹو لیڈر‘ سيف العدل کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ سے القاعدہ اور ایران کے درمیان حکمت عملی کے تحت کیے جانے والے اتحاد کا راز کھل گیا ہے۔

دو دہائیوں تک پوری دنیا کو ایک چالاک گروہ سے خطرہ تھا جس نے 11 ستمبر 2001 کے واقعات سمیت دنیا بھر میں کئی بم دھماکوں اور حملوں میں ہزاروں افراد کی جانیں لیں۔

القاعدہ جو کبھی دنیا میں دہشت گردی کے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک تھی تاہم حالیہ برسوں میں بڑی حد تک اس کا وجود دھندلا گیا ہے جس نے آخری بار 2019 میں فلوریڈا کے ایک نیول ایئر سٹیشن پر فائرنگ کا دعویٰ کیا تھا۔ اس واقعے میں تین افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے تھے۔

گروپ کے بانی اور قائد اسامہ بن لادن کو 2011 میں ابیٹ آباد میں ایک امریکی کارروائی میں ہلاک کر دیا گیا تھا اور ان کے جانشین ایمن الظواہری گذشتہ سال افغانستان میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔

اس گروپ کے متعدد دیگر سینیئر رہنماؤں کو بھی دنیا بھر میں چن چن کر نشانہ بنایا گیا جس کے بعد ایسا لگا کہ گروپ کے لیے چھپنے کے لیے کوئی جگہ نہیں بچی تاہم رواں ہفتے شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے ساتھ ہی یہ مفروضہ بدل گیا۔

اقوام متحدہ کے ماہرین کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سيف العدل اب عالمی شدت پسند گروپ کے درپردہ رہنما ہیں۔

اس رپورٹ کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ تھی کیوں کہ یہ القاعدہ کے نئے رہنما کی شناخت تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ اس میں سيف العدل کے اتنے لمبے عرصے تک زندہ چھپے رہنے کی ایک وجہ بتائی گئی اور وہ یہ تھی ایرانی حکومت نے انہیں پناہ دی ہوئی تھی۔

سيف العدل القاعدہ کے بانی ارکان میں سے ایک تھے جو 1988 میں مصر چھوڑ کر افغانستان منتقل ہو گئے تھے۔ وہاں انہوں نے ’مکتب الخدمت‘ میں شمولیت اختیار کی جو القاعدہ کی ذیلی تنظیم ہے جس کی بنیاد اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری نے رکھی تھی۔

دھماکہ خیز مواد کے ماہر سيف العدل نے سوویت افغان جنگ کے خاتمے کے بعد طالبان کے ارکان کو تربیت دی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہاں انہوں نے باقاعدگی سے اسامہ بن لادن اور خالد شیخ محمد سے ملاقات کیں جو کہ نائن الیون کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ان حملوں کے ’اصل ماسٹر مائنڈ‘ تھے۔

سيف العدل بالآخر 2001 کے اختتام پر امریکی فوجی مداخلت کے بعد افغانستان سے فرار ہو کر پڑوسی ملک ایران پہنچ گئے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ اگرچہ وہ سرکاری طور پر تہران کے ایک گھر میں نظربند تھے لیکن انہیں تقریباً 2010 سے پاکستان کا سفر کرنے اور القاعدہ کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتیں کرنے کی آزادی دی گئی تھی۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ رکن ممالک کی انٹیلی جنس پر مبنی ہے جس میں سيف العدل کے ٹھکانے کے بارے میں اضافی روشنی ڈالنے میں مدد ملتی ہے۔

ایران جو تکنیکی طور پر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ القاعدہ اور اس کی شاخوں کا سخت مخالف ہے، میں سيف العدل کی موجودگی نے اس شدت پسند تنظیم کو مکمل خاتمے سے بچنے میں مدد کی ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے سابق سینیئر عہدیدار گیبریل نورونہ نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’یہ بہت اہم ہے کہ سيف العدل، جو اب القاعدہ کے سربراہ ہیں، تہران کے قریب رہتے اور آپریٹ کرتے ہیں۔ ایرانی حکومت نے ہوشیاری سے حساب لگایا ہے کہ القاعدہ کی میزبانی اور اسے فعال رکھنے سے وہ گروپ کو کنٹرول کر سکتی ہے اور ایران کے دشمنوں پر حملہ کرنے کی کوششوں میں بھی مدد فراہم کر سکتی ہے۔‘

سيف العدل کا دنیا بھر میں متعدد حملوں کی منصوبہ بندی میں براہ راست کردار تھا جس میں دارالسلام اور نیروبی میں امریکی سفارت خانوں پر 1998 کے بم دھماکوں کی منصوبہ بندی بھی شامل تھی۔ ان دونوں حملوں میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

امریکی اور سعودی انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ سيف العدل نے تہران میں رہتے ہوئے 2003 میں سعودی دارالحکومت ریاض میں تین الگ الگ رہائشی کمپاؤنڈز میں دہشت گردانہ حملوں کے لیے ہدایات فراہم کی تھیں جس میں 39 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اب القاعدہ کی باگ دوڑ سنبھالنے والے سيف العدل ایران میں اپنے نسبتاً محفوظ ٹھکانے کو آپریشنز کے لیے استعمال کر رہے ہیں تاکہ شدت پسند گروہ کو ایسے وقت میں قابل عمل بنایا جا سکے جب دنیا میں اس کے لیے جگہ تنگ ہو گئی ہے۔

گیبریل نورونہ نے مزید کہا: ’محکمہ خارجہ نے جنوری 2021 میں انکشاف کیا تھا کہ ایران نے سيف العدل اور القاعدہ کو دہشت گردی کی سازشوں میں مدد کرنے کے لیے آپریشنل بیس اور پاسپورٹ سمیت لاجسٹک مدد فراہم کی۔ اگر انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا تو وہ پوری دنیا میں مزید دہشت گردانہ حملے کرنے لگیں گے۔ فی الحال وہ دوبارہ منظم ہو رہے ہیں، مزید وسائل، بھرتی اور صلاحیتیں حاصل کر رہے ہیں۔‘

2020 میں سيف العدل کے ایک قریبی ساتھی ابو محمد المصری کو مبینہ طور پر تہران میں اسرائیلی ایجنٹوں نے ہلاک کر دیا تھا تاہم سيف العدل ابھی تک مفرور ہیں۔

سیف العدل کی حکمت عملی اور مہارت سے القاعدہ دنیا کی خطرناک ترین دہشت گرد تنظیموں میں سے ایک بن کر ابھری اور ایران میں ان کی موجودگی حکومتی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔

ایرانی فوج ’اسلامی انقلابی گارڈ کور‘ یا آئی آر جی سی نے خطے میں نہ صرف القاعدہ کی موجودگی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے بلکہ داعش کو بھی جو کہ القاعدہ کی عراق اور شام کی شاخ سے الگ ہونے والا گروپ تھا۔ نام نہاد دولت اسلامی کو عراق، شام اور مشرق وسطیٰ کے دیگر علاقوں میں ایرانی حمایت یافتہ افواج کی توسیع کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایران کی طرف سے دوہرے معیار کی واضح مثال ہے۔ ایرانی حکام نے القاعدہ اور داعش کے خلاف جنگ کی آڑ میں اکثر نیم فوجی مہمات اور عراق اور شام میں حکمرانی پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔

امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سکالر فریڈ کیگن نے اس حوالے سے عرب نیوز کو بتایا: ’ایرانی مسلسل امریکہ پر الزام لگاتے ہیں کہ واشنگٹن نے ان پر حملہ کرنے کے لیے داعش کو بنایا اور داعش کی حمایت جاری رکھی۔ تاہم خود ایرانیوں نے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے فائدہ اٹھایا ہے جس کے بغیر داعش کی اب بھی ایک بڑی اور طاقتور علاقائی خلافت موجود ہوتی۔‘

ان کے بقول: ’ایران کی منافقت حقیقت میں نمایاں ہے کیوں کہ یہ اب مزید واضح ہوتا جا رہا ہے کہ تہران کئی سالوں سے القاعدہ کے ایک انتہائی سینئر رہنما کو پناہ دے رہا ہے۔‘

مغربی انٹیلی جنس حکام کے مطابق ایران دونوں جانب سے کھیل رہا ہے جیسا کہ ایک جانب  ایرانی فوج اور خطے میں اس کی حمایت یافتہ گروپس کو دہشت گردی سے لڑنے والی فورسز کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی جب کہ حقیقت میں یہ القاعدہ کی توسیع اور اس سرگرمیوں کو فعال کرنے میں مدد کرتا رہا ہے جیسا کہ تہران کی جانب سے جنوبی ایشیا سے شام میں القاعدہ کے متعدد اہم ہائی پروفائل رہنماؤں کو راہداری کی سہولت فراہم کی گئی۔

امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے 2012 کی ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے ایرانی نیٹ ورک کے اس وقت کے رہنما محسن الفضلی نے فنڈز اور جنگجوؤں کو شام منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

اس وقت دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس کے لیے امریکی انڈر سیکریٹری ڈیوڈ ایس کوہن نے اس نیٹ ورک کے آپریشن میں ایران کی مسلسل شمولیت کی تصدیق کی تھی۔

محسن الفضلی 2015 میں شام کے صوبے ادلب میں امریکی فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ عوامی بحث کا حصہ بن گئی ہے کہ القاعدہ کے ساتھ ایران کے تعلقات برسوں سے کتنے گہرے ہو سکتے ہیں۔

غیر سرکاری گروپ ’یونائیٹڈ اگینسٹ اے نیوکلیئر ایران‘ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی جانب سے 2008 میں پاسداران انقلاب کو مبینہ طور پر بھیجا گیا ایک خط پکڑا گیا تھا جس میں ایران اور القاعدہ کے درمیان اس سے بھی زیادہ گہرے تعلقات کا انکشاف ہوا جو اس سے پہلے کسی نے تصور کیے تھے۔‘

ایسا لگتا ہے کہ ایران کے مقاصد کا دائرہ اس سے بھی وسیع ہے۔ ایک وقت کے لیے القاعدہ خلیجی ریاستوں، بحیرہ روم کے ممالک اور شمالی افریقہ کے لیے ایک سنگین خطرہ تھا جو سب صحارا افریقہ میں مختلف ’فرنچائزز‘ قائم کرنے میں کامیاب رہی۔

نورونہ نے کہا: ’یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ایران خطے کی سنی حکومتوں کو کمزور اور تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ ایسا کرنے کا اس سے بہتر اور کیا طریقہ ہے کہ انتہا پسند سنی دھڑوں کو بااختیار بنایا جائے تاکہ وہ اندر سے حکومتوں کو کمزور کر سکیں؟‘

وائس آف امریکہ سے انٹریو میں اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی کے ایک سابق سینئر اہلکار ایڈمنڈ فٹن براؤن، جو اب غیر سرکاری انسداد انتہا پسندی پروجیکٹ کے مشیر ہیں، نے کہا: ’ایران میں القاعدہ کی موجودگی ایک طرح کی چِپ ہے۔ انہیں پوری طرح سے یقین نہیں ہے کہ وہ اسے کیسے یا کب استعمال کر سکتے ہیں لیکن یہ وہ چیز ہے جس کی وہ قدر سمجھتے ہیں۔‘

اس میں حیرت کی بات نہیں ہے کہ ایران القاعدہ کے ساتھ اپنے تعلق سے مسلسل انکار کرتا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے نیویارک میں اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب نے 13 فروری کو کہا: ’یہ بات کی کوئی اہمیت نہیں اور یہ کہ القاعدہ کے نام نہاد نئے رہنما کا ایڈریس غلط ہے۔‘

رپورٹ کے نتائج کو ’غلط معلومات‘ قرار دینے کے بعد اسے مسترد کرتے ہوئے ایرانیوں نے کہا کہ وہ ’دہشت گردی سے نمٹنے کی کوششوں میں ممکنہ طور پر تعاون ختم کر سکتے ہیں۔‘

بلاشبہ عوامی سطح پر ایران کی غیر روایتی جنگ میں شامل اور فوج کے انٹیلی جنس ونگ ’قدس فورس‘ کی طرف سے ایک ایسے گروپ کو فراہم کی گئی حمایت کا انکشاف کرنا جس نے پوری دنیا میں ہزاروں سنی اور شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا ہے، سیاسی طور پر شرمناک ہو گا اور اس سے ایرانی حکومت کا یہ مذموم سلسلہ بھی بے نقاب ہو جائے گا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ ایک یاد دہانی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب القاعدہ کو اعلیٰ قیادت کے فقدان کے باعث غیر فعالیت کا سامنا ہے، تہران میں ایک پناہ گاہ نے اسے نئی لائف لائن فراہم کر دی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا