پاکستانی اولمپیئن اور گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ ماہ سے عالمی مقابلوں کے لیے ٹریننگ شروع کر رہے ہیں اور اس بار ان کی تیاری عالمی ریکارڈ توڑنے کی ہو گی۔
ارشد ندیم ویسے تو ان دنوں گولڈ میڈل جیتنے کے بعد انعامات اکھٹے کر رہے ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والی ملکی و غیر ملکی کمپنیاں بھی انہیں اپنا برینڈ ایمبیسڈر بنا رہی ہیں۔ جبکہ تشہیری مہم کے لیے بھی انہیں ہارٹ فیورٹ سمجھا جا رہا ہے۔
یہ سوالات بھی جنم لے رہے ہیں کہ وہ اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے کے بعد کسی عالمی مقابلے میں شریک کیوں نہیں ہو رہے؟
حالانکہ ان کے مد مقابل انڈین نیزہ باز نیرج چوپڑا فٹنس مسائل کے باوجود دو عالمی مقابلوں میں حصہ لے چکے ہیں۔
ہفتے کو لاہور میں ایک تقریب کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ارشد ندیم نے کہا کہ ’اولمپکس کے بعد کچھ آرام چاہیے تھا اور فٹنس کا بھی مسئلہ تھا۔
’لہذا اب میں اگلے ماہ سے ٹریننگ شروع کر رہا ہوں۔ امید ہے اس بار پہلے سے زیادہ عالمی معیار کی سہولیات دستیاب ہوں گی۔‘
ایک سوال کے جواب میں ارشد ندیم نے کہا کہ ’اب جو بھی عالمی مقابلے ہوں گے ان میں حصہ لوں گا۔ جاپان میں ہونے والی 2025 ورلڈ اتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں شرکت کروں گا۔
’اس کے بعد لاس اینجلس اولمپکس 2028 کے لیے بھی ابھی سے تیاری کروں گا چاہے اس میں وقت ہے۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ کہ آپ انڈیا میں ہونے والی ساوتھ ایشیا چیمپیئن شپ بطور مہمان شریک ہوں گے؟
انہوں نے جواب دیا کہ ’کھیلوں کے فروغ کے لیے ہونے والے مقابلوں میں شرکت میرے لیے باعث فخر ہے۔
’مگر اس حوالے سے فیصلہ فیڈریشن اور حکومت نے کرنا ہے اگر ان کی طرف سے اجازت ہو گی تو ضرور جاوں گا۔‘
ارشد ندیم کے بقول: ’پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے اپنے آبائی گاوں میں سٹیڈیم کے لیے وزیر اعلی پنجاب سے درخواست کی تھی جو انہوں نے منظور کر لی ہے۔
’ہر شہر میں کھیلوں کی سہولیات سے نوجوان میری طرح ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق: ’عالمی مقابلوں میں اپنے اعزاز کا دفاع کرنا چیلنج ہوگا لیکن محنت سے نہ صرف یہ اعزاز برقرار رکھوں گا بلکہ اب کوشش ہو گی کہ اپنا ہی ریکارڈ توڑ سکوں۔
’اب میرا مقابلہ کسی اور کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے آپ کے ساتھ ہو گا۔ جتنی عزت اور شہرت پاکستان سے مجھے ملی ہے کوشش ہو گی اپنے ہم وطنوں کو کبھی مایوس نہ کروں بلکہ ان کی عزت اور محبت کا ہمیشہ پاس رکھوں۔‘
ارشد ندیم نے کہا کہ ’جو محنت کرتا ہے اس کا صلہ ضرور ملتا ہے جو بھی انعامات ملے یا عزت ملی اس سے محنت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہو گا۔‘
سیاست میں آنے کے سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ ’میری سیاست اور فرض صرف نیزہ بازی ہے وہی کھیلوں گا کیونکہ مجھے یہی کام آتا ہے۔ جن کا کام سیاست ہے وہ سیاست کریں۔‘
انعامات کی بارش
جب سے ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا ہے ان کے لیے کروڑوں روپے کے انعامات کے اعلانات ہو چکے ہیں۔ وفاقی حکومت نے 15کروڑ نقد انعام اور ہلال امتیاز سے نوازا۔
پنجاب حکومت نے 10 کروڑ نقد انعام اور گاڑی تحفے میں دی۔ گورنر پنجاب نے بھی 10کروڑ اور ایک گاڑی دی۔ سندھ حکومت نے پانچ کروڑ اورگورنر سندھ نے بھی انعامات سے نوازا۔
اسی طرح نجی کمپنیوں نے بھی گاڑیاں اور نقد انعام دیا۔ آرمی چیف نے بھی انہیں فیملی سمیت جی ایچ کیو بلا کر ان کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کیا۔
ارشد ندیم نے 40سال بعد سنگل کیٹگری میں پاکستان کو گولڈ میڈل دلوا کر کارنامہ بھی بڑا سرانجام دیا۔ لیکن ملک میں انہیں ملنے والے انعامات اور اعزازات سے نوازنے کی ایسی مثال بھی ماضی قریب میں دکھائی نہیں دیتی۔
سپورٹس جرنلسٹس ایسوسی ایشن لاہور کے صدر عقیل بلا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ارشد ندیم نے پیرس اولپمکس میں گولڈ میڈل جیت کر اور ریکارڈ قائم کر کے دنیا کو حیران کیا۔
’لیکن پاکستان میں حکومت یا عوامی سطح پر جس طرح انہیں پذیرائی ملی وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ پاکستان میں اس سے پہلے نیزہ بازی کے بارے میں زیادہ لوگ جانتے بھی نہیں تھے۔
’ارشد نے نوجوانوں کو ترغیب دلائی کہ اگر لگن اور محنت کا جذبہ ہو تو کسی کام میں بھی اپنا اور ملک کا نام روشن کیا جا سکتا ہے۔‘
عقیل کے بقول: ’میاں چنوں کے ایک چھوٹے سے گاوں کا لڑکا دنیا بھر میں خود کو منوانے میں کامیاب ہوا۔ اب انہیں جو انعامات یا محبت کی صورت میں ملا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے ساتھ ذمہ داری بھی اتنی بڑھ گئی ہے انہیں پہلے ے بھی سخت محنت کرنا ہو گی۔ کیونکہ کھیلوں کے میدانوں میں بڑے بڑے سورما جنم لیتے ہیں لیکن کئی بار خود اعتمادی کے باعث ہی گمنام ہو جاتے ہیں۔
’وقت کے ساتھ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ عرصہ فٹ رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ لہذا ارشد ندیم کو سب سے زیادہ توجہ اپنی فٹنس پر دینا ہو گی تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ عرصہ تک نیزہ بازی میں بنایا نام قائم رکھ سکیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ’اگر وہ کروڑوں پتی ہونے کے بعد آسائشوں کے عادی ہو کر ٹریننگ اور فٹنس میں سخت محنت جاری نہ رکھ سکے تو جتنی جلدی انہوں نے نام بنایا اتنی ہی جلدی وہ اس میدان میں گمنام ہو جائیں گے۔
’حکومتی سطح پر بھی کرکٹ کی طرح دیگر کھیلوں پر توجہ دینی ہو گی تاکہ مزید ارشد ندیم پیدا ہو سکیں۔ اسی طرح ارشد ندیم کو بھی اپنے ساتھ نوجوان نیزہ باز تیار کرنے چاہییں تاکہ ان کے بعد بھی پاکستان کا یہ اعزاز برقرار رہے۔‘
نمبر پلیٹ کا ٹرینڈ
جب ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا اس سے اگلے روز سابق سینیئر کرکٹ پلیئر سکندر بخت نے جیو ٹی وی کے پروگرام میں پہلی بار یہ تجویز پیش کی کہ ارشد نے 92.97 میٹر نیزہ تھرو کر کے اولمپکس کا جو ریکارڈ بنایا ہے۔ اسے یادگار بنانے کے لیے انہیں خصوصی رجسٹریشن نمبر اسی نمبر کا الاٹ ہونا چاہیے۔
اس کے بعد جب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز ارشد ندیم کے گاوں گئیں تو انہیں ہنڈا گاڑی تحفے میں دی ساتھ ہی محکمہ ایکسائز پنجاب نے انہیں یہ نمبر بھی الاٹ کر دیا۔
جس کے بعد محکمہ ایکسائز نے یہ پالیسی بھی بنا دی کہ کوئی بھی اپنے نام یا خصوصی نمبر کی رجسٹریشن کرا سکتا ہےاور اپنی گاڑی کو وہی نمبر لگا سکتا ہے۔
اسے وینیٹی نمبر پلیٹس کا نام دیا گیا اور اس کی تین کیٹگریز بنائی گئی ہیں۔
محکمہ ایکسائز حکام کے مطابق کارپوریٹ وینیٹی نمبر پلیٹ ایک کروڑ روپے، پلاٹینم وینیٹی نمبر پلیٹ 50لاکھ اسی طرح گولڈ نمبر پلیٹ پانچ لاکھ روپے فیس ادا کر کے حاصل کی جاسکتی ہے۔
جس کے بعد اب تک کئی شہریوں نے یہ وینیٹی نمبر پلیٹس حاصل کی ہیں۔ یہ ٹرینڈ سلیبرٹیز میں زیادہ مقبول ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔