صوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں پولیس اور طبی حکام کا کہنا ہے کہ پاڑہ چنار میں تین دن سے جاری جھڑپوں میں 12 افراد جان سے گئے جبکہ 37 زخمی ہو گئے۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پاڑہ چنار کے سربراہ ڈاکٹر سید میر حسن جان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گذشتہ تین دنوں سے اب تک اپر کرم سے مجموعی طور پر 26 افراد لائے گئے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’لڑائی وال علاقوں سے 26 افراد میں چھ کی موت جبکہ 21 افراد زخمی ہوئے ہیں جن کی مختلف سرجریز جاری ہیں۔‘
اسی طرح لوئر کرم کے پولیس کنٹرول روم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’لوئر کرم میں اب تک چھ اموات جبکہ 11 افراد زخمی ہوئے ہیں۔‘
لڑائی کیسے شروع ہوئی؟
ضلع کرم کے اپر کرم تحصیل کے علاقے پاڑہ چنار میں واقع بوشہرہ اور احمد زئی گاؤں کے مابین زمینی تنازع دو دن پہلے شروع ہوا اور دونوں فریقین ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہو گئے۔
احمدزئی گاؤں اور بوشہرہ گاؤں کے لوگ ایک دوسرے پر ان کی زمینوں میں مورچے بنانے کا الزام عائر کرتے ہیں اور اسی سے تنازعے کا آغاز ہوا۔
اس لڑائی میں اپر کرم میں اب تک ہسپتال انتظامیہ کے مطابق چھ افراد جان سے گئے ہیں اور 21 زخمی ہوئے ہیں۔
لڑائی میں فریقین کی جانب سے بھاری ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا گیا تاہم ماضی کی طرح فریقین کے مابین لڑائی ضلع کے دیگر علاقوں تک پہنچ چکی ہے۔
بوشہرہ کے بعد لوئر کرم تحصیل کے بالش خیل اور خار کلے گاؤں کے مابین جھڑپیں شروع ہو ہو گئیں۔
ضلع کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید محسود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’لڑائی کو روکنے اور فائر بندی کے لیے علاقہ مشران کی مدد سے کوششیں جاری ہیں جبکہ سکیورٹی اہلکار بھی تیار ہیں۔‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’ٹروپس کو علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے تاکہ جھڑپوں کو روکا جا سکے۔‘
انجمن حسینیہ پاڑہ چنار کے سربراہ جلال حسین بنگش نے گذشتہ روز پاڑہ چنار پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب میں بتایا کہ ’یہ ذاتی زمینی تنازع ہے اور اس کو دیگر علاقوں تک پھیلایا جاتا ہے۔‘
جلال حسین نے بتایا کہ ’اس کا نقصان یہ ہوتا ہے دونوں جانب جانی نقصان ہوتا ہے۔‘
انہوں نے اپیل کرتے ہوئے بتایا کہ ’ذاتی زمینی تنازعات کو دیگر علاقوں اور اقوام تک نہیں پھیلانا چاہیے۔‘
جلال حسین بنگش نے کہا کہ ’ہم کرم میں امن کے خواہاں ہیں اور اس مسئلے کے حل کے لیے پہلے دن سے گرینڈ جرگہ، ضلعی انتظامیہ اور ضلعی پولیس کام کر رہی ہے۔‘
دوسرے جانب انجمن فاروقیہ کے صدد منیر بنگش نے حالیہ واقعات پر آفسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ ’40 سال سے ہم ایک دوسرے کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں لیکن اس کا نتیجہ تباہی، بغض، نفرت کے سوا کچھ نہیں ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’حالات اس نہج تک پہنچ گئے ہیں دونوں جانب چند عناصر اب مشران کی باتیں بھی نہیں سنتے اور اسی وجہ سے اب ہمیں ان عناصر کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔‘
منیر بنگش نے بتایا کہ ’چند عناصر جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ بعض جگہوں پر ہم نے فائر بندی کی ہے لیکن بعض عناصر کے لیے شائد جنگ میں فائدہ ہے اور وہ امن کے خواہاں نہیں ہیں۔‘
دو مہینے قبل بھی اسی طرح کے ایک زمینی تنازع پر فریقین کے مابین جھڑپیں ہوئی تھیں جن میں 42 افراد جان سے گئے تھے۔
جس کے بعد مختلف اقوام کی جانب سے جرگہ کیا گیا اور جرگے کی کوششوں سے فائر بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔
بوشہرہ گاؤں اور زمینی تنازع
حالیہ کشیدگی سمیت ماضی میں ہونے والی زمینی تنازعات پر جھڑپوں کا آغاز عموماً بوشہرہ نامی گاؤں سے ہوتا ہے جو ضلع کے دیگر علاقوں تک پھیل جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ضلع اپر کرم کے صدر مقام پاڑہ چنار کا نواحی علاقہ بوشہرہ بظاہر خیبر پختونخوا کے کسی عام پہاڑی علاقے جیسا ہی ہے لیکن یہاں واقع زمین کا ایک ٹکڑا ایسا ہے جس پر تنازعے نے اب تک درجنوں افراد کی جان لے لی ہے۔
30 جریب یعنی اندازاً 100 کنال زمین کی ملکیت کا تنازع بوشہرہ کے دو دیہات میں مقیم قبائل کے درمیان ہے لیکن زمینی تنازع لڑائی کے بعد جنگ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
خیبر پختونخوا کا ضلع کرم افغانستان کی سرحد پر واقع ہے، اس سے قبل ضلع کرم میں 2007 میں شروع ہونے والا ایک بڑا تنازع کئی سالوں تک جاری رہا تھا اور 2011 میں قبائلی عمائدین کی جرگے کی مدد سے اسے ختم کیا گیا تھا۔
مقامی افراد کے مطابق گذشتہ تین دنوں سے ضلع کرم میں جاری جھڑپوں کی وجہ سے مرکزی شاہراہ ٹل پاڑہ چنار ٹریفک کے لیے مکمل طور پر بند ہے اور ضلع کرم کا رابطہ دیگر ملک سے منقطع ہے۔
مقامی صحافی ریحان محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ٹل پاڑہ چنار روڈ کی بندش کی وجہ سے کل (22 ستمبر کو) ہونے والے میڈیکل ٹیسٹ کے بہت سے امیدواران رہ گئے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جب بھی یہ مرکزی شاہراہ بند کی جاتی ہے تو کرم میں عوام کو اشیائے خوردو نوش، دوائیاں اور دیگر سامان کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
ریحان محمد کے مطابق: ’ضلع کرم سے زیادہ تر مریض پشاود کے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں لیکن اس روڈ کی بندش سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘